اسلام آباد، جمعرات، 22 مئی 2025 (ڈبلیو این پی): سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کا ایک اعلیٰ سطحی اجلاس جمعرات کو چیئرمین سینیٹر شہادت اعوان کی زیرصدارت منعقد ہوا، جس میں بھارت کی جانب سے مبینہ جارحانہ اقدامات کے تناظر میں سندھ طاس معاہدے (IWT) کی حالیہ صورتحال پر غور کیا گیا۔
اجلاس میں پاکستان کے انڈس واٹرز کمشنر سید محمد مہر علی شاہ نے کمیٹی کو تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ سندھ طاس معاہدہ ایک دو طرفہ بین الاقوامی معاہدہ ہے، جسے کوئی بھی فریق یکطرفہ طور پر معطل نہیں کر سکتا۔ انہوں نے واضح کیا کہ "یہ معاہدہ مکمل طور پر نافذ العمل ہے اور پاکستان و بھارت دونوں پر قانونی طور پر لازم ہے۔” انہوں نے بھارت کی جانب سے مغربی دریاؤں کے پانی کو روکنے کی کوششوں کو معاہدے کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔
کمیٹی نے مشترکہ طور پر بھارت کی طرف سے 1960 کے معاہدے کی یکطرفہ معطلی کی غیر قانونی اور بلاجواز کوشش کی شدید مذمت کی، جسے کمیٹی نے پاہلگام میں ہونے والے مبینہ فالس فلیگ آپریشن کے بعد کیا گیا ایک اشتعال انگیز اقدام قرار دیا۔ ارکان پارلیمنٹ نے خبردار کیا کہ اس طرح کے اقدامات پاکستان کی آبی سلامتی، زرعی معیشت اور 25 کروڑ عوام کے روزگار کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔
سینیٹر شہادت اعوان نے کہا، "یہ معاہدہ محض ایک کاغذی کارروائی نہیں، بلکہ ہمارے قومی وجود کا مسئلہ ہے۔ پانی ہماری سرخ لکیر ہے۔”
کمیٹی نے سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل 12 کی شق 4 اور ویانا کنونشن برائے قانون معاہدات 1969 کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ ان قوانین کے تحت کسی بھی معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل یا ختم نہیں کیا جا سکتا۔ کمیٹی نے عالمی بینک کے صدر کے حالیہ بیان کا بھی حوالہ دیا، جس میں انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ بدستور مؤثر ہے اور دونوں فریقوں پر لازم ہے۔
پاکستان کے نچلی سطح کے دریائی ریاست ہونے کے ناطے معاہدے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کمیٹی نے ماحولیاتی تبدیلیوں اور غیر متوقع مون سون نظام کے باعث درپیش خطرات کا ذکر کیا اور ملک کی غذائی سلامتی و اقتصادی استحکام کے لیے پانی کے تسلسل کو ناگزیر قرار دیا۔
کمیٹی نے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر بھارت کے مبینہ حملے کی بھی سخت مذمت کی اور اسے "آبی جنگ اور جارحیت” قرار دیا، جو علاقائی امن کے لیے خطرہ ہے۔
کمیٹی کے اعلامیے میں کہا گیا، "پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا پاکستانی قوم کے لیے ناقابل برداشت ہے۔” ساتھ ہی خبردار کیا گیا کہ ایسے اقدامات دونوں ممالک کے درمیان حالیہ جنگ بندی کو بھی خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
کمیٹی نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت کی آبی جارحیت کا فوری نوٹس لے اور نئی دہلی پر بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کے لیے دباؤ ڈالے۔ اعلامیے میں کہا گیا، "سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کو ملنے والا ہر قطرہ ہمارا حق ہے، اور ہم اس کا قانونی و سیاسی دفاع عالمی سطح پر کریں گے۔”
کمیٹی نے ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تمام تنازعات بشمول جموں و کشمیر کے مسئلے کے پرامن حل کا حامی ہے، لیکن آبی حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
کمیٹی کے اختتامیہ میں کہا گیا، "پانی پر کسی بھی قسم کا خطرہ ہمارے وجود کے لیے خطرہ ہے، اور ہمیں اپنی افواج پر مکمل اعتماد ہے کہ وہ وطن عزیز کا دفاع اور پاکستان کے حقوق کا بھرپور تحفظ کریں گی۔”
اجلاس میں سینیٹر فیصل سلیم رحمان، سینیٹر سعدیہ عباسی، سینیٹر محمد ہمایوں مہمند، سینیٹر پونجو بھیل، وفاقی وزیر برائے آبی وسائل محمد معین وٹو، سیکرٹری آبی وسائل سید علی مرتضیٰ، انڈس واٹرز کمشنر سید محمد مہر علی شاہ اور دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔