وزیرِاعظم شہباز شریف کا بھارت کی سندھ طاس معاہدے کی معطلی پر شدید ردعمل، آبی جارحیت قرار دے کر فیصلہ کن جواب کا اعلان

3

2025 (WNP): وزیرِاعظم شہباز شریف نے بھارت کی جانب سے یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے (IWT) کی معطلی کو کھلی خلاف ورزی اور "آبی جارحیت” قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ پاکستان اس اقدام کا بھرپور جواب دے گا، جو کہ 24 اپریل کو منعقدہ قومی سلامتی کمیٹی (NSC) کے اجلاس کے فیصلوں کی روشنی میں دیا جائے گا۔

وزیرِاعظم ہاؤس میں قومی آبی سلامتی سے متعلق اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیرِاعظم نے کہا کہ جیسے پاکستان حالیہ جنگ میں کامیاب ہوا، ویسے ہی وہ آبی محاذ پر بھی اپنے قومی حقوق کا دفاع پُرعزم انداز میں کرے گا۔

انہوں نے کہا، "یہ انصاف کی لڑائی ہے، اور جس طرح ہم نے ہر چیلنج کو قومی اتحاد سے شکست دی ہے، ویسے ہی بھارت کی آبی جارحیت کو بھی حکمت اور عزم سے ناکام بنائیں گے۔”

اجلاس میں ڈپٹی وزیرِاعظم و وزیرِخارجہ اسحاق ڈار، آرمی چیف فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، آزاد جموں و کشمیر کے وزیرِاعظم، گلگت بلتستان کے وزیرِاعلیٰ اور اعلیٰ سول و عسکری حکام نے شرکت کی۔

تمام صوبائی و علاقائی قیادت نے بھارت کی آبی دھمکیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے مؤقف کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ وزیرِاعظم نے اس قومی یکجہتی کو پاکستان کے آبی خودمختاری کے دفاع میں "قومی عزم کی طاقتور علامت” قرار دیا۔

وزیرِاعظم نے کہا کہ بھارت کی طرف سے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکیاں بڑھتی جا رہی ہیں، جو بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ 1960 کا سندھ طاس معاہدہ، جو عالمی بینک کی نگرانی میں طے پایا تھا، کسی بھی فریق کو یکطرفہ طور پر معاہدے سے دستبرداری کی اجازت نہیں دیتا۔

پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبی ضروریات کے پیش نظر، وزیرِاعظم نے ڈپٹی وزیرِاعظم اسحاق ڈار کی سربراہی میں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی قائم کرنے کا حکم دیا، جو نئے ڈیموں کی تعمیر کیلئے ہنگامی فنڈنگ اور عملی حکمتِ عملی تیار کرے گی۔ یہ کمیٹی 72 گھنٹوں میں اپنی سفارشات پیش کرے گی۔

انہوں نے کہا، "جہاں قومی اتفاق رائے ہو، وہاں تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ ڈیم سیاسی نہیں، قومی بقا کے ضامن ہیں۔”

اجلاس کو بتایا گیا کہ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر جاری ہے اور اس کی تکمیل 2032 تک متوقع ہے، جبکہ مہمند ڈیم 2027 تک مکمل ہو جائے گا۔ اس وقت پاکستان میں 11 بڑے ڈیم موجود ہیں جن کی مجموعی ذخیرہ گنجائش 15.318 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (PSDP) کے تحت 32 ڈیمز اور سالانہ ترقیاتی منصوبوں کے تحت مزید 79 منصوبے زیرِتعمیر ہیں۔

وزیرِاعظم نے تربیلا اور منگلا جیسے موجودہ ڈیمز میں مٹی بھرنے (سلٹنگ) کے سنگین مسئلے پر بھی روشنی ڈالی، جس سے ان کی گنجائش میں نمایاں کمی آئی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا، "اگر ہم نے اب فیصلہ کن اقدامات نہ کیے تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ یہ سیاست کا نہیں، قوم کی بقاء کا معاملہ ہے۔”

انہوں نے عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے فنڈز کے حصول پر وزارتِ خزانہ اور اقتصادی امور کے حکام کو سراہا، اور بتایا کہ بھارت کی بھرپور لابنگ کے باوجود پاکستان اپنے منصوبے محفوظ رکھنے میں کامیاب رہا۔

"بھارت نے تین دن تک ایشیائی ترقیاتی بینک میں ہمارے منصوبے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہا۔ یہ سفارتی فتح پاکستان کے اصولی مؤقف اور بڑھتی ہوئی ساکھ کا ثبوت ہے،” وزیرِاعظم نے کہا۔

اجلاس کے اختتام پر وزیرِاعظم شہباز شریف نے ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کے باہمی اعتماد کا اعادہ کرتے ہوئے کہا، "جس طرح ہماری بہادر افواج نے سرحدوں کا دفاع کیا، ویسے ہی ہمیں ہر قطرہ پانی کے دفاع کیلئے متحد ہونا ہوگا۔”

اجلاس میں وفاقی وزراء خواجہ آصف، احسن اقبال، اعظم نذیر تارڑ، عطا اللہ تارڑ، اویس لغاری، اور منیب وٹو کے علاوہ پنجاب کی وزیرِاعلیٰ مریم نواز، سندھ کے وزیرِاعلیٰ مراد علی شاہ، خیبرپختونخوا کے وزیرِاعلیٰ علی امین گنڈا پور، بلوچستان کے وزیرِاعلیٰ سرفراز بگٹی، آزاد کشمیر کے وزیرِاعظم انوارالحق اور گلگت بلتستان کے وزیرِاعلیٰ گلبر خان نے شرکت کی۔

سندھ طاس معاہدے کی معطلی پر اعلیٰ سطحی سیمینار، قانونی و سفارتی حکمتِ عملی پر غور

بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی کے تناظر میں بدھ کو کامسٹیک (COMSTECH) میں ایک اہم سیمینار "آبی بحران اور سندھ طاس معاہدہ” کے عنوان سے منعقد ہوا، جس میں قانونی، سفارتی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے ممکنہ اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

یہ سیمینار او آئی سی-کامسٹیک، کراچی کونسل آن فارن ریلیشنز (KCFR)، حصار فاؤنڈیشن اور پنجوانی-حصار واٹر انسٹیٹیوٹ (PHWI) کے اشتراک سے منعقد ہوا، جس میں ماہرینِ قانون، آبی پالیسی سازوں اور ماحولیاتی ماہرین نے شرکت کی۔

KCFR کی چیئرپرسن نادِرہ پنجوانی نے سیمینار کا افتتاح کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کی 65 سالہ تاریخی اہمیت کو اجاگر کیا اور بھارت کی خلاف ورزی کو علاقائی عدم استحکام کا باعث قرار دیا۔

PHWI کے بورڈ ممبر زوہیر عاشر نے موجودہ تناؤ کے پیش نظر ایک مربوط اور حکمت پر مبنی ردعمل کی اہمیت پر زور دیا۔

حصار فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن اور PHWI کی بانی سیمی کمال نے معاہدے کا ہائیڈرو لوجیکل تجزیہ پیش کرتے ہوئے پاکستان کی آبی حکمرانی کیلئے سائنسی، ڈیٹا پر مبنی حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت پر زور دیا۔

ماہرِ ماحولیاتی قانون رفاعی عالم نے بین الاقوامی قانون کے تحت پاکستان کے حقوق کی وضاحت کی اور عالمی عدالتِ انصاف سے رجوع کے ممکنہ راستے پیش کیے۔

سینیٹر مشاہد حسین سید نے بھارت کے اقدام کو "علاقائی سفارت کاری پر ضرب” قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ یہ نئی دہلی کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور چین کے ساتھ اس کے تعلقات کو مزید کشیدہ بنا سکتا ہے۔ انہوں نے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کو "انسانیت کے خلاف جرم” قرار دیا۔

ماحولیاتی پالیسی کے ماہر علی توقیر شیخ نے موسمیاتی تبدیلی اور آبی سیاست کے خطرات کو اجاگر کرتے ہوئے قومی سطح پر ایک جامع آبی حکمتِ عملی اپنانے پر زور دیا۔

معروف دفاعی تجزیہ کار اکرام سہگل نے بھارت کے جارحانہ رویے کو اس کی مجموعی پالیسی کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر سفارتی کوششیں ناکام ہوئیں تو پانی اگلا محاذ بن سکتا ہے۔

کامسٹیک کے کوآرڈینیٹر جنرل ڈاکٹر اقبال چوہدری نے سیمینار کا اختتام کرتے ہوئے پاکستان پر زور دیا کہ وہ اپنے آبی حقوق کے تحفظ کیلئے تمام ممکنہ قانونی، سفارتی اور بین الاقوامی فورمز کو مؤثر طریقے سے استعمال کرے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں