اسلام آباد، ہفتہ، 21 جون 2025 (ڈبلیو این پی): وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ نے سوشل میڈیا انفلوئنسر ثناء یوسف کے بہیمانہ قتل کو پاکستان کے نظامِ انصاف کے لیے ’’ٹیسٹ کیس‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ قاتل کو قانون کے مطابق سخت ترین سزا دی جائے گی تاکہ آئندہ کوئی اس قسم کے گھناؤنے جرم کی جرأت نہ کر سکے۔
وزیر اطلاعات نے ان خیالات کا اظہار ہفتہ کو اسلام آباد میں مقتولہ کے اہلِ خانہ سے تعزیت کے بعد ایک جذباتی بیان میں کیا۔ انہوں نے کہا، ’’یہ اندوہناک واقعہ پوری قوم کو ہلا کر رکھ دینے والا ہے۔ اسے مثال بنانا ہو گا تاکہ آئندہ کسی کو ایسی درندگی کی جرأت نہ ہو۔‘‘
عطا تارڑ نے بتایا کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے واقعے کا سختی سے نوٹس لیا ہے، اور حکومت پرعزم ہے کہ اس کیس میں فوری اور مثالی انصاف یقینی بنایا جائے گا۔
انہوں نے اعلان کیا کہ استغاثہ کے عمل کو مؤثر بنانے کے لیے ایک خصوصی قانونی ٹیم تشکیل دی جائے گی تاکہ کسی بھی قانونی خامی سے بچا جا سکے جو مقدمے کو کمزور کر سکتی ہو۔ ’’ہم اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ مجرم کو قانون کے مطابق سخت ترین سزا دلوانا ہمارا ہدف ہے،‘‘ انہوں نے کہا۔
وزیر اطلاعات نے خواتین، خصوصاً سوشل میڈیا پر فعال خواتین کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ ان کا کہنا تھا، ’’ہمیں اپنی بیٹیوں کو ایک محفوظ ماحول فراہم کرنا ہو گا تاکہ انہیں بااختیار بنایا جا سکے۔ آن لائن اور آف لائن دونوں سطحوں پر تحفظ یقینی بنانے کے لیے قانون سازی ناگزیر ہے۔‘‘
انہوں نے اسلام آباد پولیس کی تیز رفتار کارروائی کو سراہتے ہوئے کہا، ’’پولیس نے فوری ردعمل دیتے ہوئے چند گھنٹوں میں مرکزی ملزم کو گرفتار کیا، جو قابلِ تحسین ہے۔‘‘
ادھر مقدمے کے مرکزی ملزم عمر حیات کو شناخت پریڈ کے بعد چار روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ مقتولہ کی والدہ اور خالہ نے اسے شناخت کیا۔ جوڈیشل مجسٹریٹ محمد حفیظ نے ملزم کے طبی معائنے کا حکم بھی دیا اور آئندہ سماعت پر پولیس کو مکمل رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔
پراسیکیوشن ذرائع کے مطابق پولیس نے ملزم کا موبائل فون اور گاڑی برآمد کرنے کے لیے سات روزہ ریمانڈ کی استدعا کی تھی، تاہم عدالت نے چار دن کی منظوری دی۔ ملزم نے عدالت کو بتایا کہ وہ موبائل پہلے ہی پولیس کے حوالے کر چکا ہے اور قانونی معاونت کا مطالبہ کیا، ساتھ ہی کہا کہ اسے اپنے اہلِ خانہ سے کوئی رابطہ حاصل نہیں ہے۔
وفاقی پراسیکیوٹر آفس نے مقدمے کی مؤثر پیروی کے لیے دو رکنی ٹیم مقرر کر دی ہے، جس میں ڈپٹی ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹر عدنان علی اور قانونی ماہر راجہ نوید کیانی شامل ہیں۔ یہ ٹیم تفتیشی افسر کے ساتھ مل کر شواہد کا جائزہ لے گی اور ایک جامع چالان کی تیاری میں مدد دے گی۔
یہ اقدام حکومت کی جانب سے شفاف اور سنجیدہ قانونی کارروائی کے عزم کو ظاہر کرتا ہے، تاکہ انصاف بلا تاخیر اور بغیر کسی سمجھوتے کے فراہم کیا جا سکے۔
ثناء یوسف، جو سوشل میڈیا پر خاصی مقبول تھیں، کو رواں ہفتے انتہائی بے دردی سے قتل کیا گیا۔ پولیس کے مطابق یہ ایک ’’منصوبہ بند اور ہدفی کارروائی‘‘ تھی۔ اس واقعے نے ملک بھر میں شدید عوامی ردعمل کو جنم دیا ہے اور خواتین کو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر تحفظ دینے کے لیے قوانین پر نظرثانی کے مطالبات میں شدت آ گئی ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں اور ڈیجیٹل ایکٹوسٹ حلقوں نے حکومت کے فوری ردعمل کو سراہا ہے، تاہم انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ یہ اقدام محض علامتی نہ ہو، بلکہ عملی اقدامات سے ثابت کیا جائے کہ پاکستان میں خواتین کے لیے انصاف ممکن ہے۔
قوم سوگ کی کیفیت میں ہے اور آئندہ چند دن اس بات کا تعین کریں گے کہ آیا ثناء یوسف کا مقدمہ واقعی ایسا نظیر بن سکے گا جیسا حکومت وعدہ کر رہی ہے — جو پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد کے خلاف ریاستی ردعمل کی نئی بنیاد رکھ سکے گا۔