تحریر: سمرہ خاکسار
اسلام آباد، جمعرات، 29 مئی 2025ء (ڈبلیو این پی): جنوبی ایشیا میں جہاں ایٹمی طاقت، تاریخی تنازعات اور سرحدی کشیدگیاں ایک پیچیدہ منظرنامہ پیش کرتی ہیں، وہیں پاکستان نے اپنی عسکری حکمتِ عملی کو محض روایتی طاقت کے بجائے جدید اور غیرروایتی جہتوں کی طرف موڑ کر خطے میں توازن قائم رکھنے کی نئی راہیں نکالی ہیں۔ "ہزار زخموں سے بھارت کو لہو لہان کرنا” جیسی اصطلاح کے ذریعے معروف یہ نظریہ دراصل پاکستان کی اُس اسٹریٹیجک سوچ کی عکاسی کرتا ہے جس کے تحت وہ کم وسائل کے باوجود ایک بڑے اور جدید عسکری حریف کو مؤثر انداز میں جواب دیتا ہے — وہ بھی مکمل جنگ سے گریز کرتے ہوئے۔
مئی 2025 میں پیش آنے والی حالیہ سرحدی کشیدگی نے ایک بار پھر اس حکمتِ عملی کی اہمیت اور مؤثریت کو اُجاگر کیا۔ بھارت کے حملوں کے ردِعمل میں پاکستان کی جانب سے کی گئی بروقت اور مؤثر جوابی کارروائیاں اس امر کا واضح ثبوت ہیں کہ پاکستان نہ صرف اپنے دفاع سے بخوبی آگاہ ہے بلکہ جدید ٹیکنالوجی، چابک دستی، اور حکمت پر مبنی حربی اقدامات کے ذریعے اپنے سے بڑے دشمن کو بھی زیر کر سکتا ہے۔
بھارت کا سالانہ دفاعی بجٹ 70 ارب ڈالر سے زائد جبکہ پاکستان کا بجٹ 11 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ اسی طرح بھارت کی فوجی نفری، ٹینکوں اور طیاروں کی تعداد بھی کہیں زیادہ ہے۔ مگر پاکستان نے اس فرق کو روایتی دوڑ کے بجائے جدت، رفتار اور حیران کن حربوں کے ذریعے کم کرنے کی راہ اپنائی ہے۔
پاکستان کی اسٹریٹیجک کامیابی کا راز اُس کی ہمہ جہت غیرروایتی حکمتِ عملی میں پنہاں ہے، جس میں جدید میزائل سسٹمز، خصوصی دستے، سائبر اور الیکٹرانک وارفیئر شامل ہیں۔ بابر اور شاہین سیریز کے میزائل سسٹمز نہ صرف پاکستان کے دفاع کو مضبوط بناتے ہیں بلکہ دشمن کے اندر گہرائی تک حملہ کرنے کی صلاحیت بھی فراہم کرتے ہیں۔
پاکستانی فوج کا خصوصی دستہ — ایس ایس جی — انٹیلیجنس آپریشنز، انسداد دہشت گردی، اور پہاڑی جنگ کے ماہر سپاہیوں پر مشتمل ہے، جو بھارت کی روایتی فوجی چالوں کا بھرپور مقابلہ کرتے ہیں۔ ساتھ ہی پاکستان نے سائبر وارفیئر اور الیکٹرانک حملوں میں بھی خاصی مہارت حاصل کر لی ہے، جو جدید دور میں کسی بھی جنگ کا اہم محاذ بن چکے ہیں۔
بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں دہشت گردی کے ایک واقعے کے بعد بھارت نے "آپریشن سندور” کے نام سے پاکستانی علاقوں میں کارروائی کا دعویٰ کیا۔ اس کے جواب میں پاکستان نے "آپریشن بنیان المرسوس” کے تحت مؤثر عسکری کارروائی کی، جس میں میزائل حملے، ڈرون آپریشنز اور فضائی دفاعی اقدامات شامل تھے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستان نے بھارت کے چھ جنگی طیارے مار گرائے، جن میں جدید ترین رافیل، مگ-29، ایس یو-30 اور اسرائیلی ساختہ ہیرون ڈرون شامل تھے۔
یہ کارروائی نہ صرف عسکری میدان میں پاکستان کی چابک دستی کا مظہر بنی بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی ایک حیران کن پیغام تھا — کہ جنگی ساز و سامان کی برتری محض تعداد پر نہیں بلکہ تدبیر، مہارت اور نکتہ چینی پر مبنی ہوتی ہے۔
اس کشیدگی کے بعد امریکہ کی ثالثی سے جنگ بندی تو عمل میں آئی، مگر اس واقعے نے عالمی سطح پر جنوبی ایشیا کے سیکیورٹی خدشات کو اجاگر کر دیا۔ ایٹمی صلاحیت کے حامل دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کے خطرناک نتائج ہو سکتے ہیں، اور پاکستان نے اپنی حکمت عملی سے یہ پیغام دیا کہ وہ روایتی جنگ سے گریز کرتے ہوئے بھی اپنا دفاع نہایت مؤثر انداز میں کر سکتا ہے۔
بھارت کی 7 لاکھ سے زائد افواج اس وقت مقبوضہ کشمیر میں تعینات ہیں، جہاں وہ مقامی تحریکوں کو دبانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس بھاری تعیناتی نے بھارتی فوجی وسائل کو خاصا محدود کر دیا ہے، جو اسے چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تناؤ کے وقت مشکل میں ڈال سکتی ہے۔ پاکستان نے اس صورتحال کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی عسکری حکمت عملی کو مزید بہتر بنایا ہے اور اپنی جدید صلاحیتوں کو مؤثر انداز میں بروئے کار لایا ہے۔
پاکستان کی غیرروایتی عسکری حکمتِ عملی نہ صرف ایک کامیاب دفاعی نظریہ کے طور پر ابھری ہے بلکہ اس نے دنیا بھر کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ چھوٹے ممالک بھی اگر حکمت، جدیدیت اور جرات کے ساتھ آگے بڑھیں تو وہ بڑے حریفوں کا مؤثر مقابلہ کر سکتے ہیں۔
پاکستان کی عسکری قیادت نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ محض تعداد یا بجٹ جنگ جیتنے کے لیے کافی نہیں، بلکہ اصل کامیابی ان اصولوں میں پنہاں ہے جو جدید دور کی جنگی ضروریات سے ہم آہنگ ہوں۔
نوٹ: مصنفہ کشمیر انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز (KIIR) کی ریسرچ انٹرن ہیں اور HEAL پاکستان کی رکن ہیں، جو نوجوانوں پر مبنی ایک تنظیم ہے جو انسانیت، تعلیم، آگاہی اور قیادت کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہے۔