یونائیٹڈ نیشنز، بدھ، 4 جون (ڈبلیو این پی): پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی پاکستانی پارلیمانی وفد نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر نیویارک کا دو روزہ دورہ مکمل کر لیا۔ دورے کے دوران وفد نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے بھارت کو تعمیری مذاکرات کی راہ پر لانے میں اپنا کردار ادا کرے۔
وفد نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس، جنرل اسمبلی کے صدر، سلامتی کونسل کے ارکان، او آئی سی گروپ کے سفیروں، سول سوسائٹی نمائندگان اور پاکستانی کمیونٹی سے ملاقاتیں کیں۔ ملاقاتوں کا مقصد بھارت کی اشتعال انگیز پالیسیوں سے جنم لینے والی علاقائی کشیدگی کے تناظر میں پاکستان کا موقف پیش کرنا تھا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان تمام ہمسایہ ممالک سے برابری اور باہمی احترام کی بنیاد پر پرامن تعلقات کا خواہاں ہے، لیکن کسی قسم کی جارحیت، قانون شکنی یا بین الاقوامی ضوابط کی خلاف ورزی کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ بھارت کی یکطرفہ فوجی کارروائیوں کو معمول بنانے کی کوشش جنوبی ایشیا جیسے جوہری خطے میں خطرناک نتائج پیدا کر سکتی ہے۔
پاکستانی وفد نے بھارت کی طرف سے بلا اشتعال جارحیت، اشتعال انگیز بیانات اور سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی کو بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی اور پاکستان کے 24 کروڑ عوام کے لیے خطرہ قرار دیا۔ انہوں نے بھارت کی طرف سے 22 اپریل کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہونے والے دہشت گرد حملے کا الزام پاکستان پر ڈالنے کو بے بنیاد اور ثبوت سے عاری قرار دیا۔
وفد نے عالمی برادری کو انسداد دہشت گردی میں پاکستان کی قربانیوں کا یاد دلاتے ہوئے کہا کہ 80 ہزار سے زائد پاکستانی، بشمول عام شہری اور سیکیورٹی اہلکار، اس جنگ میں جانیں گنوا چکے ہیں۔ وفد نے بھارت پر پاکستان میں ریاستی دہشت گردی کرانے اور سرحد پار قتل و غارت کی مہم چلانے کا الزام بھی عائد کیا۔
موسمیاتی تبدیلی کے وزیر سینیٹر مصدق ملک نے سندھ طاس معاہدے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ پاکستان کے لیے غذائی تحفظ اور ماحولیاتی استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔ وفد نے اقوام متحدہ اور کلیدی رکن ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ معاہدے کی بحالی کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالیں تاکہ پانی کو ہتھیار نہ بنایا جا سکے۔
بلاول بھٹو نے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کو خطے میں پائیدار امن کے لیے ناگزیر قرار دیا۔ انہوں نے انسداد دہشت گردی کے لیے دو طرفہ تحقیقات پر مبنی میکنزم کی تجویز بھی دی تاکہ آئندہ کشیدگی کو روکا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت دہشت گردی کے بہانے اقلیتوں کو دبانے اور کشمیر پر قبضہ جمانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان دہشت گردی کے خلاف تعاون پر آمادہ ہے لیکن ہر حملے کے بعد فوجی کارروائی کا رویہ ناقابل قبول ہے۔ "دو جوہری ممالک کے درمیان بھارت کا موجودہ رویہ غیر ذمہ دارانہ اور خطرناک ہے،” بلاول نے کہا۔
سلامتی کونسل کے مستقل اور غیر مستقل اراکین سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتوں میں پاکستانی وفد نے بھارت کے حملوں کے بعد خطے کی صورتحال پر بریفنگ دی۔ روس کے مستقل مندوب وسیلی نیبینزیا کو بھی صورتحال سے آگاہ کیا گیا۔
وفد نے تمام ملاقاتوں میں زور دیا کہ بین الاقوامی قانون، برداشت اور سفارتکاری کو فوقیت دی جائے۔ بلاول بھٹو نے واضح کیا کہ مسئلہ کشمیر ہی خطے میں تمام کشیدگیوں کی جڑ ہے اور اس کا پرامن حل ہی دیرپا امن کی ضمانت ہے۔
سلامتی کونسل کے ارکان نے پاکستان کے سفارتی رابطوں کو سراہتے ہوئے زور دیا کہ جنوبی ایشیا جیسے حساس خطے میں اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں کشیدگی کم کرنے اور تنازعات کے پرامن حل کو ترجیح دی جائے۔
نیویارک میں دورے کے اختتام پر بلاول بھٹو نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں عالمی ردعمل پر اطمینان ہے لیکن خبردار کیا کہ مستقبل میں کشیدگی قابو سے باہر جا سکتی ہے۔ "دو جوہری ریاستوں کے درمیان مکمل جنگ کی دہلیز خطرناک حد تک کم ہو چکی ہے،” انہوں نے کہا۔
انہوں نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر خارجہ مارکو روبیو کی ثالثی کو عارضی جنگ بندی میں معاون قرار دیا لیکن اس پر زور دیا کہ مسئلے کے مستقل حل کے لیے عالمی برادری کو مسلسل کردار ادا کرنا ہوگا۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے جارحانہ طرزِ عمل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بلاول نے ان کا موازنہ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو سے کیا۔ "کشمیر، دہشت گردی اور پانی جیسے حساس مسائل کا کوئی فوجی حل نہیں۔ صرف مذاکرات ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہیں،” انہوں نے کہا۔
وفد نیویارک سے واشنگٹن روانہ ہو گیا جہاں وہ سفارتی رابطے جاری رکھے گا۔ ادھر بھارت کا ایک وفد سابق سفارتکار ششی تھرور کی قیادت میں امریکی ارکان کانگریس اور تھنک ٹینکس سے رابطے میں ہے۔