جنگ جیتا کون؟ اسرائیل، ایران اور امریکہ کی کامیابی کے دعوؤں کا غیر جانبدارانہ تجزیہ

11

تحریر: حنیف قمر

اسلام آباد، جمعہ، 27 جون 2025 (ڈبلیو این پی): تل ابیب فتح کے شادیانے بجا رہا ہے، تہران میں "مزاحمتی کامیابیوں” کے جلوس نکل رہے ہیں، اور واشنگٹن خود کو امن کا علمبردار قرار دے رہا ہے—مگر اصل سوال یہ ہے: کیا واقعی کوئی اس جنگ میں جیتا؟ ہر فریق فتح کا دعویدار ہے، مگر سچ شاید غزہ، بیروت اور تہران کے ملبے تلے دفن ہے۔

یہ جنگ بظاہر ایران پر حملے سے شروع ہوئی، مگر اس کی جڑیں 7 اکتوبر کے روز حماس کے اسرائیل پر اچانک حملے سے جا ملتی ہیں—جس کی مالی اور نظریاتی سرپرستی ایران نے کھلے عام کی۔ ایران نے اس تنازعے کو ایک مذہبی جنگ کی شکل دی، جس میں اس نے خود کو فلسطینی مزاحمت کا مرکزی پشت پناہ ظاہر کیا۔

ابتدائی حملوں میں کئی اسرائیلی فوجی مارے گئے یا پکڑے گئے، مگر جواب بے رحمانہ تھا: اسرائیل نے حماس اور حزب اللہ کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنایا، غزہ، لبنان اور شام کے کئی علاقے راکھ کا ڈھیر بن گئے، ہزاروں عام شہری مارے گئے۔ شام میں ایران کے اتحادی اسد حکومت بھی امریکی-اسرائیلی دباؤ کے سامنے لڑکھڑا گئی۔ ایران کے زیر اثر تمام ریاستی اور غیر ریاستی اتحادی یا تو مفلوج ہوئے یا ختم۔

اس کے بعد اسرائیل نے ایران پر براہ راست حملے کیے—جن کا ہدف ایران کا جوہری پروگرام اور ممکنہ طور پر حکومت کی تبدیلی تھا۔ مگر یہاں ایران نے بیانیہ تبدیل کرنے کی حکمتِ عملی اپنائی۔

ایران نے جنگ کی ابتدا حماس کے حملے سے ہوئی، مگر جلد ہی اسے "اسرائیلی جارحیت” کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا۔ عالمی مسلم رائے عامہ بھی اسی بیانیے کی طرف مائل ہوئی۔ حماس اور غزہ کی ابتدائی قربانیاں پس منظر میں چلی گئیں اور توجہ ایران پر اسرائیلی حملوں پر مرکوز ہو گئی۔

ایران کو بھاری نقصان ہوا: سینئر فوجی، سیاسی اور ایٹمی سائنس دان مارے گئے، اربوں ڈالر کا انفراسٹرکچر تباہ ہوا۔ ایران نے جوابی کارروائی میں تل ابیب اور حیفہ جیسے اسرائیلی شہروں پر میزائل داغے، جن سے جانی و مالی نقصان ہوا، مگر اسرائیلی ریاستی نظام یا قیادت کو کوئی بڑا دھچکا نہیں لگا۔

اس کے بعد امریکہ نے ایران کے ایٹمی مراکز پر حملے کیے، جس کے جواب میں ایران نے قطر میں امریکی فوجی اڈے کو نشانہ بنایا۔ چند ہی دنوں میں جنگ غیر متوقع طور پر ختم ہو گئی۔

اگر اسرائیلی نقطہ نظر سے دیکھیں تو یہ ایک اسٹریٹجک فتح تھی: حماس اور حزب اللہ کی قیادت کو ختم کیا گیا، ان کی عسکری قوت کمزور ہوئی، شامی حکومت کمزور ہوئی، اور ایران کو بھاری نقصان پہنچایا گیا۔ اگرچہ حکومتِ ایران کا خاتمہ نہ ہو سکا، مگر تل ابیب کو اپنے اہداف کی بڑی حد تک تکمیل پر جشن منانے کا حق حاصل ہے۔

ایران اپنے انداز میں کہتا ہے کہ اس نے "اسرائیل کی ناقابلِ شکست ہونے کا تاثر توڑ دیا”، اسرائیل کے اندر حملے کیے، معیشت کو نقصان پہنچایا، اور سب سے اہم بات یہ کہ حکومت کی تبدیلی کا منصوبہ ناکام بنایا۔ ایران کے بیانیے میں شہادت کو شکست نہیں، بلکہ روحانی بلندی تصور کیا جاتا ہے۔

ادھر امریکہ خود کو اصل فاتح تصور کرتا ہے—جس نے ایران کے جوہری عزائم کو نقصان پہنچایا، خطے میں طاقت کا توازن بحال کیا، اور آخر میں دونوں فریقین کو میز پر لا کر "صلح” کرائی۔

جب تمام عالمی و علاقائی طاقتیں اپنے اپنے مفروضہ فتوحات کے گن گاتی ہیں، غزہ کے ملبے میں کھڑا ایک بوڑھا فلسطینی، پھٹے ہوئے کپڑوں میں ملبوس، نم آنکھوں سے پوچھتا ہے:

شاید یہی وہ سوال ہے جو تمام سیاسی بیانیوں، سفارتی کامیابیوں، اور عسکری فتوحات پر بھاری ہے۔ کیونکہ اصل شکست ان لاکھوں انسانوں کی ہے جنہوں نے نہ جنگ شروع کی، نہ اس کا فیصلہ کیا، مگر سب سے زیادہ قربانیاں دی۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں