واشنگٹن، پیر، 12 مئی 2025 (ڈبلیو این پی): امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ نے پیر کے روز دعویٰ کیا ہے کہ ان کی انتظامیہ نے بھارت اور پاکستان کے درمیان ممکنہ ایٹمی تصادم کو روکنے میں کلیدی کردار ادا کیا، اور اس کامیابی کو "جارحانہ تجارتی سفارتکاری” کا نتیجہ قرار دیا۔
وائٹ ہاؤس میں مشرق وسطیٰ روانگی سے قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ جنوبی ایشیا کے یہ دونوں جوہری طاقتیں شدید کشیدگی کی کیفیت میں تھیں، خاص طور پر بھارت کے جانب سے آپریشن ’’سندور‘‘ شروع کرنے اور پاکستان کی بھرپور جوابی کارروائی کے بعد۔
"وہ دونوں ایک دوسرے پر شدید حملے کر رہے تھے اور یہ سلسلہ رکنے والا نہیں لگ رہا تھا،” ٹرمپ نے کہا، جو ہفتہ کو ہونے والے سیز فائر کا حوالہ دے رہے تھے، جو 22 اپریل کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے شہر پہلگام میں 26 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد کشیدگی میں اضافے کے دوران ہوا۔
صدر ٹرمپ نے بتایا کہ انہوں نے دونوں ممالک پر تجارتی معاہدوں کے ذریعے دباؤ ڈالا تاکہ انہیں پیچھے ہٹنے پر آمادہ کیا جا سکے۔ "میں نے کہا، آؤ ہم تمہارے ساتھ بہت ساری تجارت کریں گے، بس رک جاؤ۔ اگر تم رکو گے تو ہم تجارت کریں گے، اگر نہیں رکو گے تو ہم کچھ بھی نہیں کریں گے۔”
انہوں نے مزید کہا: "کسی نے پہلے تجارت کو اس انداز میں استعمال نہیں کیا جس طرح میں نے کیا — یہ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں۔ اور پھر اچانک انہوں نے کہا، ہم رک جاتے ہیں۔ اور وہ رک گئے۔”
صدر ٹرمپ نے واضح کیا کہ اگرچہ جنگ بندی کے پیچھے کئی عوامل کارفرما تھے، لیکن تجارت ایک فیصلہ کن عنصر تھا۔ "ہم پاکستان کے ساتھ بھی بہت تجارت کریں گے اور بھارت کے ساتھ بھی۔”
بحران کے ممکنہ نتائج پر اظہار خیال کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا: "ہم نے ایک ایٹمی جنگ کو روکا۔ یہ ایک خوفناک ایٹمی جنگ بن سکتی تھی۔ لاکھوں لوگ مارے جا سکتے تھے۔ اس لیے میں اس پر بہت فخر محسوس کرتا ہوں۔”
ہفتے کی شب ایک علیحدہ بیان میں، صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش بھی دہرائی، اور کہا کہ وہ اس دیرینہ تنازع کے پرامن حل کے لیے دونوں ممالک کی مدد کرنے کو تیار ہیں۔