واشنگٹن، اتوار، اپریل 20، 2025 (ڈبلیو این پی): امریکی سفارتکار اتوار کو اس وقت شدید تشویش میں مبتلا ہو گئے جب میڈیا رپورٹس میں ایک مسودہ ایگزیکٹو آرڈر کے انکشاف نے تہلکہ مچا دیا، جس میں محکمہ خارجہ کی ازسرنو ترتیب، وسیع پیمانے پر ملازمتوں میں کٹوتی، اہم شعبہ جات کے خاتمے اور امریکی سفارتی حکمت عملی میں نمایاں تبدیلی کی تجاویز دی گئی ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ان رپورٹس کو فوراً "جعلی خبر” قرار دے کر مسترد کر دیا، تاہم محکمہ خارجہ میں پھیلی بےچینی نے ٹرمپ انتظامیہ کے مبینہ منصوبوں پر گہری تشویش کو بے نقاب کر دیا، جو "افادیت میں اضافے” کے نام پر محکمہ کی بنیادی ساخت کو بدلنے کی تیاری کر رہی ہے۔
خبر رساں ادارے بلومبرگ کے مطابق، اگر یہ تبدیلیاں نافذ ہو گئیں تو یہ 1789 میں محکمہ خارجہ کے قیام کے بعد سب سے بڑی تنظیمی تبدیلیوں میں سے ایک ہوں گی۔ بلومبرگ نے 16 صفحات پر مشتمل مسودہ دستاویز کا حوالہ دیتے ہوئے یہ انکشاف کیا۔
مسودے میں پیش کردہ تجاویز میں افریقی امور کے بیورو کو بند کرنا، بین الاقوامی تنظیموں کے بیورو کو محدود کرنا، اور جمہوریت کے فروغ، انسانی حقوق، مہاجرین، ماحولیاتی تبدیلی اور عالمی خواتین کے امور سے متعلق دفاتر کا خاتمہ شامل ہے۔ اس کے علاوہ، کینیڈا میں سفارتی سرگرمیوں میں بھی نمایاں کمی کی جائے گی اور اوٹاوا میں امریکی سفارتخانے کو کم کر کے شمالی امریکہ امور کے دفتر (NAAO) کے تحت لایا جائے گا۔
تجویز کے مطابق، محکمہ خارجہ کے علاقائی ڈھانچے کو چار "کور” میں تقسیم کیا جائے گا: انڈو-پیسفک، لاطینی امریکہ، مشرق وسطیٰ اور یوریشیا، جبکہ سب صحارا افریقہ میں "غیر ضروری” سفارتخانوں اور قونصل خانوں کو بند کر دیا جائے گا۔ پالیسی سازی اور آپریشنل منصوبہ بندی میں مصنوعی ذہانت (AI) کا بڑھتا ہوا استعمال بھی تجویز کیا گیا ہے۔
اس مسودے کے تحت امریکی سفارتکاروں کو ان کے کیریئر کے دوران کسی ایک مخصوص خطے میں تعینات رکھا جائے گا، روایتی روٹیشن سسٹم ختم کر دیا جائے گا۔ علاوہ ازیں، محکمہ خارجہ کی جانب سے دی جانے والی فلبرائٹ اسکالرشپس کو قومی سلامتی سے متعلقہ شعبہ جات تک محدود کر دیا جائے گا، اور سیاہ فام اداروں جیسے ہاورڈ یونیورسٹی سے منسلک فیلوشپس ختم کر دی جائیں گی، تاکہ تنوع، مساوات اور شمولیت (DEI) سے متعلقہ اقدامات کا خاتمہ کیا جا سکے۔
نئی بھرتیوں کے لیے تمام عہدوں اور ذمہ داریوں کی منظوری صدر امریکہ سے براہ راست لینا ضروری ہوگی، جبکہ فارن سروس کے امتحان کو ختم کر دیا جائے گا۔ بھرتی کا نیا معیار صدر کی خارجہ پالیسی وژن سے ہم آہنگی قرار دیا گیا ہے۔
سب سے متنازعہ تجویز افریقی امور کے بیورو کو ختم کر کے وائٹ ہاؤس نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ماتحت ایک چھوٹے خصوصی ایلچی دفتر سے تبدیل کرنے کی ہے، جو صرف انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں اور قیمتی قدرتی وسائل کے اسٹریٹجک استحصال پر توجہ دے گا۔
اگرچہ محکمہ خارجہ کے بعض عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اصل میں ہونے والی تبدیلیاں اس مسودے میں بیان کی گئی تجاویز کے مقابلے میں کم شدید ہو سکتی ہیں، لیکن اس لیک نے قیاس آرائیوں کو ہوا دی ہے کہ شاید یہ انتہائی سخت منصوبہ اس لیے لیک کیا گیا ہے تاکہ بعد میں نسبتاً کم مگر پھر بھی اہم تبدیلیاں آسانی سے قبول کرائی جا سکیں۔
فارن سروس سے متعلقہ ریڈٹ فورم پر ایک صارف نے لکھا: "مجھے شک ہے کہ یہ مسودہ ایک چال ہے تاکہ ہم ایک نسبتاً کم سخت مگر ناپسندیدہ تنظیم نو پر شکر گزار ہو جائیں۔ یہ منصوبہ فوری طور پر عدالتوں میں چیلنج ہو جائے گا اور عمل درآمد اس وقت تک رکا رہے گا جب تک ٹرمپ کو عہدے سے ہٹا نہ دیا جائے۔”
واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پہلے بھی غیر ملکی امداد اور سفارتی اداروں کو کم کرنے کی کوشش کر چکی ہے، جیسا کہ یو ایس ایڈ (USAID) کو محکمہ خارجہ میں ضم کرنے کی کوشش، جسے شدید مزاحمت اور جزوی واپسی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
مسودے کے مطابق، انسانی امدادی امور کا بیورو (Bureau of Humanitarian Affairs) یو ایس ایڈ کی اہم ذمہ داریاں سنبھالے گا، جبکہ ماحولیاتی تبدیلی اور خواتین کے عالمی مسائل پر امریکی سفارتی سرگرمیاں مؤثر طور پر ختم کر دی جائیں گی۔
یہ تجویز متعدد اندرونی دستاویزات میں سے ایک ہے۔ دیگر تجاویز میں محکمہ خارجہ کے بجٹ میں 50 فیصد کٹوتی اور 10 سفارتخانوں اور 17 قونصل خانوں کو بند کرنے کی تجاویز بھی شامل ہیں۔
محکمہ خارجہ کے مطابق، دنیا بھر میں 270 سے زائد سفارتی مشنز پر 13,000 فارن سروس افسران، 11,000 سول سروس ملازمین اور 45,000 مقامی عملہ تعینات ہے۔
نیویارک ٹائمز نے اطلاع دی ہے کہ صدر ٹرمپ اس ہفتے کے آخر تک مجوزہ ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر سکتے ہیں، اور ان تبدیلیوں کا نفاذ یکم اکتوبر سے متوقع ہے۔