بیجنگ، اتوار، اپریل 20، 2025 (ڈبلیو این پی): چین کے شہر شنگھائی میں حال ہی میں پانچواں چائنا-عرب ریاستیں اصلاحات و ترقیاتی فورم منعقد ہوا، جس میں چین، 19 عرب ممالک اور عرب لیگ کے 100 سے زائد نمائندوں نے شرکت کی۔ فورم میں عالمی ترقیاتی اقدام (جی ڈی آئی) کے تحت تعاون کو فروغ دینے کے نئے مواقع تلاش کرنے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
شرکاء نے اختراع پر مبنی صنعتی ترقی، کثیرالجہتی تعاون کے فروغ اور اعلیٰ معیار کی اقتصادی ترقی کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔
چین کے مشرقِ وسطیٰ کے لیے خصوصی ایلچی زائی جن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چین عرب ممالک کے ساتھ مل کر اختراعی ترقی کے فروغ اور کھلے اور باہمی مفاد پر مبنی تعاون کو مزید گہرا کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
آج چین اور عرب ریاستوں کے درمیان شراکت داری وسیع اور جامع شکل اختیار کر چکی ہے۔ سال 2024 میں دونوں فریقین کے درمیان تجارتی حجم تقریباً 400 ارب ڈالر تک پہنچ گیا، جس سے چین عرب دنیا کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بن گیا۔
بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے تحت تعاون میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اہم منصوبوں میں چین-مصر ٹیڈا سویز اکنامک اینڈ ٹریڈ کوآپریشن زون شامل ہے، جس نے مصر میں تقریباً 9 ہزار براہ راست اور 80 ہزار بالواسطہ ملازمتیں پیدا کیں۔
الجزائر میں مشرق-مغرب شاہراہ کا مشرقی سیکشن، جس کی تعمیر میں چین نے حصہ لیا، ملکی معیشت کی اہم شہ رگ بن چکی ہے۔
متحدہ عرب امارات میں، چین کی ہاربن الیکٹرک انٹرنیشنل انجینئرنگ اور سعودی عرب کی اے سی ڈبلیو اے پاور نے مل کر دبئی میں ہسیان کلین کول پروجیکٹ تعمیر کیا ہے، جو مشرقِ وسطیٰ میں اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، چین اور عرب ممالک نے بی آر آئی کے تحت بنیادی ڈھانچے، توانائی اور دیگر شعبوں میں 200 سے زائد بڑے منصوبے شروع کیے ہیں، جن سے دونوں خطوں میں تقریباً دو ارب افراد مستفید ہو رہے ہیں۔
توانائی کے شعبے میں تعاون کی ایک اور نمایاں مثال جنوب مشرقی چین کے صوبے فوجیان میں نومبر 2024 میں شروع ہونے والا "فوجیان گولی فیز II انٹیگریٹڈ ریفائننگ اینڈ پیٹروکیمیکل پروجیکٹ” ہے۔ اس منصوبے پر 71.1 ارب یوآن (تقریباً 9.7 ارب ڈالر) کی سرمایہ کاری کی گئی ہے اور اس کی سالانہ پیداواری مالیت 80.8 ارب یوآن تک پہنچنے کی توقع ہے۔
یہ منصوبہ 2030 تک مکمل پیداواری صلاحیت حاصل کرے گا اور گولی کمپلیکس میں قائم نیچے کے صنعتی یونٹس کو سالانہ 50 لاکھ ٹن خام مال فراہم کرے گا، جس سے اسمارٹ اور گرین ترقی کو فروغ ملے گا۔
کویت کی سپریم کونسل برائے منصوبہ بندی و ترقی کے سابق سیکرٹری جنرل خالد مہدی نے جی ڈی آئی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ "یہ صرف ایک نظریاتی فریم ورک نہیں بلکہ عالمی تعاون کے منظرنامے کو دوبارہ ترتیب دینے کا ایک حقیقی موقع ہے۔”
انہوں نے زور دیا کہ جی ڈی آئی کو مختلف ممالک میں مقامی سطح پر نافذ کرنا اور طویل المدتی ترقیاتی اہداف کے لیے مالی وسائل میں اضافہ ناگزیر ہے۔