حج انتظامی ناکامی: سینیٹر بپی کا 36 ارب روپے کی مکمل واپسی کا حکم، 15 اگست تک رقوم متاثرہ عازمین کو واپس کی جائیں – کسی قسم کی کٹوتی نہ کرنے کی ہدایت

7

اسلام آباد، جمعہ، 24 جون 2025 (ڈبلیو این پی): سینیٹ کی ذیلی کمیٹی برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کے اجلاس میں چیئرمین سینیٹر آن عباس بپی نے وزارت مذہبی امور کو سختی سے ہدایت کی ہے کہ رواں سال حج سے محروم رہ جانے والے 67,000 سے زائد پاکستانی عازمین کو سعودی عرب میں موجود تقریباً 36.43 ارب روپے کی رقم 15 اگست 2025 تک مکمل طور پر واپس کی جائے اور اس رقم میں کسی قسم کی کٹوتی، بشمول کرنسی تبادلہ، سروس چارجز یا انتظامی اخراجات، ہرگز نہ کی جائے۔

یہ اجلاس پارلیمنٹ لاجز کے پی آئی پی ایس ہال میں منعقد ہوا جس میں سینیٹر بُشریٰ انجم بٹ، سینیٹر دنیش کمار، وفاقی سیکریٹری مذہبی امور ڈاکٹر عطاء الرحمان، ڈائریکٹر جنرل حج عبدالوہاب سومرو (سعودی عرب سے آن لائن) اور وزارت کے سینئر حکام شریک ہوئے۔ اجلاس کا محور ان ہزاروں عازمین کی شکایات اور مشاہر خدمات (Mashaheer Services) سے متعلق بے ضابطگیوں کا جائزہ لینا تھا۔

سینیٹر بپی نے اس افسوسناک صورت حال پر شدید تشویش کا اظہار کیا جس کے باعث ہزاروں پاکستانی شہری اپنی مذہبی فریضہ ادا کرنے سے محروم رہ گئے۔ انہوں نے سعودی عرب میں موجود رقوم اور پرائیویٹ حج آپریٹرز کے ذریعے ریفنڈ کے طریقہ کار پر وضاحت طلب کی۔

وفاقی سیکریٹری ڈاکٹر عطاء الرحمان نے کمیٹی کو بتایا کہ سعودی عرب نے پاکستان کے لیے 179,210 حجاج کا کوٹہ مختص کیا تھا، جس میں سے 90,830 کوٹہ پرائیویٹ آپریٹرز کے لیے مخصوص تھا۔ تاہم، نئی سعودی پالیسی کے تحت صرف وہ آپریٹرز اہل قرار پائے جن کے پاس 500 سے 2000 افراد پر مشتمل گروپ تھے۔ پاکستان کے 903 رجسٹرڈ آپریٹرز میں سے کوئی بھی انفرادی طور پر اس شرط پر پورا نہ اُتر سکا۔

HOAP (حج آپریٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان) نے سندھ ہائی کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کیا، جو سینیٹ کمیٹی کی مداخلت کے بعد 7 جنوری 2025 کو واپس لے لیا گیا۔ تاہم، تب تک سعودی عرب میں ادائیگی کی ڈیڈ لائن تقریباً ختم ہو چکی تھی۔ HOAP نے ابتدائی طور پر 50 ملین ریال حج مشن کے اکاؤنٹ میں جمع کرائے، اور بعد میں 41 اہل آپریٹرز کی کلسٹرنگ کے ذریعے خدمات کا آغاز کیا گیا۔ مگر 14 فروری کی آخری تاریخ تک صرف 187 ملین ریال جمع ہو سکے اور صرف 26,986 عازمین مکمل ادائیگی کر سکے۔

ڈی جی حج عبدالوہاب سومرو نے بتایا کہ پاکستانی پرائیویٹ آپریٹرز کی جانب سے مجموعی طور پر 667 ملین ریال سعودی عرب منتقل کیے گئے، جن میں سے 489 ملین ریال (تقریباً 36.43 ارب روپے) تاحال غیر استعمال شدہ ہیں۔ انہوں نے تصدیق کی کہ سعودی حکام نے 14 اور 20 فروری کو دو بار مہلت دی، مگر HOAP مقررہ وقت میں ادائیگی مکمل نہ کر سکی۔

سینیٹر دنیش کمار نے اس ساری صورت حال کو بدترین انتظامی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہا کہ 67 ہزار عازمین کا محروم رہ جانا ناقابل قبول ہے۔ سینیٹر بشریٰ انجم بٹ نے HOAP کی اجلاس سے غیر حاضری پر شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اہم فریق کا غیر حاضر ہونا انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔

انہوں نے بیرون ملک سے آنے والے پاکستانیوں کی مشکلات کو اجاگر کیا، جو جھوٹے دعوؤں پر پاکستان آئے مگر حج کوٹہ نہ ملنے پر شدید مالی اور ذہنی نقصان اٹھا بیٹھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کی بدانتظامی نے عوام کا پرائیویٹ آپریٹرز اور حکومتی نظام پر سے اعتماد ختم کر دیا ہے۔

سینیٹر بپی نے ہدایت دی کہ 36.43 ارب روپے کی مکمل واپسی 15 اگست تک مکمل کی جائے، اور 41 پرائیویٹ آپریٹرز سے متاثرہ عازمین کی مکمل فہرست، انفرادی جمع شدہ رقوم کے ساتھ، کمیٹی کو پیش کی جائے۔

انہوں نے آئندہ حج سیزن 2025-26 کے لیے سعودی پالیسی پر عوامی آگاہی مہم چلانے کی بھی ہدایت کی تاکہ شہری بروقت اور درست معلومات کے ساتھ منصوبہ بندی کر سکیں۔

اجلاس میں مشاہر خدمات کے ٹھیکوں کے طریقہ کار پر بھی سوالات اٹھائے گئے۔ سابق وزیر مذہبی امور چوہدری سالک حسین کے مارچ 2025 کے خط کا حوالہ دیتے ہوئے سینیٹر بپی نے ہوٹل، ٹرانسپورٹ، کیٹرنگ اور دیگر معاہدوں میں شفافیت پر سوالات اٹھائے۔

ڈی جی حج نے بتایا کہ 14 کمپنیوں کو شارٹ لسٹ کیا گیا، جن میں سے ایک کمپنی نے 2,870 ریال کا کم ترین نرخ دیا، اور اسے مکمل 100 میں سے 100 نمبر دیے گئے۔ مگر سینیٹر بپی نے اعتراض کیا کہ دوسری کمپنی کو صرف "کمزور پریزنٹیشن” کی بنیاد پر 98 نمبر دیے گئے، حالانکہ منتخب کمپنی پہلے ہی تحفظات کا شکار تھی۔

سینیٹر بپی نے حکم دیا کہ موجودہ ڈی جی حج اور پروکیورمنٹ کمیٹی کے تمام افراد کو آئندہ مالی و انتظامی معاملات سے علیحدہ کیا جائے، اور خالصتاً شفاف، ٹیکنالوجی پر مبنی نظام اپنایا جائے جس میں سیل شدہ بولیاں، خودکار جانچ اور کم سے کم انسانی مداخلت شامل ہو۔

کمیٹی نے تجویز دی کہ وفاقی حکومت فوری طور پر ایک اعلیٰ سطحی کمیشن قائم کرے جو پرائیویٹ حج آپریٹرز کی کارکردگی کا جائزہ لے اور ان کے امور کو ضابطے میں لائے، تاکہ مستقبل میں اس قسم کی ناکامیوں سے بچا جا سکے اور عوام کا اعتماد بحال کیا جا سکے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں