اقوامِ متحدہ / جنیوا، 20 مئی 2025 (ڈبلیو این پی): عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے رکن ممالک نے کووڈ-19 کی عالمی وبا کے تناظر میں تین سالہ مذاکرات کے بعد ایک تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے مستقبل کی وباؤں سے نمٹنے کی تیاری اور ردعمل کے لیے پہلا بین الاقوامی معاہدہ باضابطہ طور پر منظور کر لیا ہے۔
یہ معاہدہ جنیوا میں جاری 78ویں عالمی صحت اسمبلی میں کثرت رائے سے منظور کیا گیا، جس کے حق میں 124 ووٹ آئے جبکہ 11 ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریسس نے اس معاہدے کو "عالمی صحت، سائنس اور کثیرالملکی تعاون کی فتح” قرار دیا اور کہا کہ یہ معاہدہ مستقبل میں کووڈ جیسے تباہ کن اثرات سے بچاؤ میں اہم کردار ادا کرے گا۔
اس سال کی عالمی صحت اسمبلی کے صدر، ڈاکٹر تھیوڈورو ہربوسا نے معاہدے کی فوری اور موثر عمل درآمد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس میں جان بچانے والی طبی سہولیات تک مساوی رسائی کو یقینی بنانے کے لیے جامع نکات شامل ہیں۔
یہ معاہدہ کووڈ-19 کے دوران سامنے آنے والے نمایاں مسائل، جیسے ٹیسٹنگ، علاج اور ویکسین کی غیر منصفانہ تقسیم، کے ازالے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اس میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ ڈبلیو ایچ او کسی ملک کے اندرونی قوانین میں مداخلت نہیں کرے گا اور نہ ہی کسی ملک کو لاک ڈاؤن، ویکسینیشن یا سفری پابندیاں نافذ کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔
جو 11 ممالک رائے شماری سے غیر حاضر رہے، ان میں پولینڈ، اٹلی، اسرائیل، ایران، روس اور سلوواکیہ شامل ہیں۔ ایران نے معاہدے میں طبی سہولیات، ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور عالمی پابندیوں کے اثرات جیسے اہم معاملات پر غیر تسلی بخش اقدامات پر تحفظات کا اظہار کیا۔
واضح رہے کہ امریکہ، سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں، پہلے ہی ڈبلیو ایچ او سے علیحدگی کے عمل کا آغاز کر چکا تھا اور اس معاہدے پر ووٹنگ میں شامل نہیں ہوا۔ امریکی وزیر صحت رابرٹ کینیڈی نے ویڈیو پیغام میں اس معاہدے کو "ڈبلیو ایچ او کی ناکام پالیسیوں کو مستقل کرنے کی کوشش” قرار دے کر اس پر تنقید کی۔
معاہدے کے آئندہ مرحلے میں "پیٹھوجن ایکسیس اینڈ بینیفٹ شیئرنگ (PABS)” نظام پر بین الحکومتی مذاکرات ہوں گے، جس پر 2026 میں ہونے والی عالمی صحت اسمبلی میں غور کیا جائے گا۔ معاہدہ اس وقت نافذ العمل ہوگا جب کم از کم 60 ممالک اس کی توثیق کریں گے۔
اس معاہدے میں ایک نیا مالیاتی نظام اور عالمی سپلائی چین اور لاجسٹکس نیٹ ورک کا قیام بھی شامل ہے، جو صحت کی ہنگامی صورتِ حال میں بروقت اور منصفانہ رسائی کو یقینی بنائے گا۔
پاکستان کا متحرک کردار اور ٹریكوما کے خاتمے پر عالمی سطح پر اعتراف
پاکستان عالمی صحت اسمبلی میں بھرپور شرکت کر رہا ہے، جہاں وفاقی وزیر صحت سید مصطفیٰ کمال پاکستانی وفد کی قیادت کر رہے ہیں۔ وہ اسمبلی سے خطاب کریں گے جس میں پاکستان کی صحت کے شعبے میں کامیابیوں، چیلنجز اور مستقبل کے لائحۂ عمل، بالخصوص پولیو کے خاتمے کے حوالے سے بات کریں گے۔
ایک اہم موقع پر، ڈبلیو ایچ او نے پاکستان کو ٹریكوما جیسے مہلک مرض کے خاتمے پر باقاعدہ طور پر تسلیم کیا۔ وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے ڈاکٹر ٹیڈروس سے ایک اعزازی سند وصول کی۔ انہوں نے اسے "پاکستان کے صحت نظام کے لیے فخر کا لمحہ” قرار دیا۔
انہوں نے اس کامیابی کا سہرا فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز، صوبائی محکمہ صحت اور بین الاقوامی شراکت داروں کو دیا اور پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے عزم کا اعادہ کیا۔
عالمی صحت سفارت کاری میں پیش رفت: چین، کیوبا اور ترکی سے دو طرفہ ملاقاتیں
عالمی صحت اسمبلی کے موقع پر وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے چین، کیوبا اور ترکی کے ہم منصبوں سے ملاقاتیں کیں تاکہ دوطرفہ صحت تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔
چین کے ساتھ ملاقات میں دونوں ممالک نے ویکسین کی تیاری، روایتی ادویات اور طبی ٹیکنالوجی کے میدان میں تعاون کو فروغ دینے پر اتفاق کیا۔ پاکستان نے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ (NIH) میں چینی کمپنیوں کے لیے ایک خصوصی ڈیسک کے قیام کا اعلان کیا، جبکہ چین نے ضروری ادویات کی مقامی پیداوار میں معاونت کی یقین دہانی کرائی۔
کیوبا کے ساتھ ملاقات میں وزیر کمال نے 2005 کے زلزلے کے بعد انسانی ہمدردی پر مبنی تعاون پر شکریہ ادا کیا۔ دونوں ممالک نے پرائمری ہیلتھ کیئر، ویکسین ٹیکنالوجی کی منتقلی اور طبی تربیت جیسے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔ وزیر کمال نے کیوبا کے دعوتِ نامے کو قبول کرتے ہوئے وہاں کے صحت نظام کا مشاہدہ کرنے کی خواہش ظاہر کی۔
ترک وزیر صحت کے ساتھ ملاقات میں پاکستان اور ترکی کے برادرانہ تعلقات کو سراہا گیا۔ دونوں ممالک نے صحت کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر آمادگی ظاہر کی اور اس سلسلے کو مزید وسعت دینے کے عزم کا اعادہ کیا۔