پہلگام واقعے پر بھارتی الزامات کا جواب دینے کے لیے وزیرِاعظم نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا

4

اسلام آباد، بدھ، اپریل 23، 2025 (ڈبلیو این پی): وزیرِاعظم محمد شہباز شریف نے بھارتی حکومت کے اشتعال انگیز بیانات اور اقدامات کے تناظر میں قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کا اہم اجلاس جمعرات کی صبح طلب کرلیا ہے تاکہ پاکستان کے مؤقف کو حتمی شکل دی جا سکے۔

یہ پیشرفت اُس وقت سامنے آئی ہے جب بھارت نے پہلگام میں 26 سیاحوں کی ہلاکت کے واقعے کے بعد سفارتی کشیدگی کو ہوا دیتے ہوئے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے، اٹاری بارڈر بند کرنے اور 48 گھنٹوں میں پاکستانی شہریوں کو ملک چھوڑنے کے احکامات جاری کیے۔ ساتھ ہی ایک ہفتے کے اندر پاکستانی ہائی کمیشن کے عملے کو بھی واپس بلانے کا اعلان کیا گیا ہے۔

بھارتی سیکرٹری خارجہ وکرم مِسری نے نئی دہلی میں کابینہ کی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد ان اقدامات کی تفصیل ایک پریس کانفرنس میں دی۔

دوسری جانب پاکستان کے نائب وزیرِاعظم اور وزیرِخارجہ محمد اسحاق ڈار نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ایکس” پر ردعمل دیتے ہوئے بھارتی فیصلوں کو "غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز” قرار دیا۔

دفتر خارجہ کے ترجمان شفقات علی خان نے اپنے بیان میں اننت ناگ کے علاقے میں پیش آئے واقعے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لواحقین سے تعزیت اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کی دعا کی۔

وفاقی وزیر برائے آبی وسائل میاں معین وٹو نے واضح کیا ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم نہیں کر سکتا کیونکہ یہ بین الاقوامی اداروں کی نگرانی میں طے پایا تھا اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے۔

اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ 1960 میں عالمی بینک کی معاونت سے وجود میں آیا اور کسی ایک فریق کی خواہش پر اس کی معطلی ممکن نہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کسی بھی بیرونی دباؤ کے سامنے نہیں جھکے گا اور اگر بھارت نے آبی جارحیت کی تو بھرپور جواب دیا جائے گا۔

وزیر توانائی سردار اویس احمد خان لغاری نے بھارت کے اس اقدام کو ’آبی جنگ‘ قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی۔

اپنے بیان میں انہوں نے کہا، "سندھ طاس معاہدے کی معطلی بھارت کا بزدلانہ اور غیرقانونی قدم ہے، جو عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ پانی کا ایک ایک قطرہ ہمارا حق ہے، اور ہم اسے قانونی، سیاسی اور عالمی محاذ پر بھرپور طریقے سے دفاع کریں گے۔”

ان بیانات کے بعد تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ بھارت کی طرف سے معاہدے کی معطلی دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو نئی سطح پر لے جا سکتی ہے۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق، پہلگام کے علاقے بیسارن میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے کم از کم 26 غیر مقامی سیاحوں کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔ یہ علاقہ صرف پیدل یا گھوڑوں کے ذریعے قابل رسائی ہے۔

واقعے کے فوراً بعد بھارتی میڈیا اور انٹیلیجنس ایجنسی را سے منسلک سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر الزامات عائد کرنا شروع کر دیے۔ ذرائع کے مطابق، حادثے کے 30 منٹ کے اندر اندر "پک اسپانسرڈ ٹیرر” جیسے ہیش ٹیگ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرنے لگے، جب کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما جے پی نڈا اور امیت شاہ نے ایک گھنٹے کے اندر ردعمل دے دیا۔

پاکستانی دفاعی ماہرین نے اس بھارتی بیانیے پر سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔ ایک ماہر نے کہا، "جہاں 9 لاکھ بھارتی فوجی تعینات ہوں، وہاں ایسی واردات کیسے ممکن ہے؟ پہلگام لائن آف کنٹرول سے تقریباً 400 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔”

انہوں نے سوال اٹھایا کہ بھارتی میڈیا اب تک متاثرین کی لاشیں یا کوئی قابلِ تصدیق شواہد کیوں نہیں دکھا سکا؟ "صرف ایک مشکوک تصویر منظر عام پر آئی ہے جس میں ایک عورت ایک زخمی کے پاس بیٹھی ہے لیکن نہ خون ہے نہ کوئی زخم۔”

سلامتی کے تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب امریکی نائب صدر بھارت کے دورے پر تھیں۔ "بھارت کا ماضی ایسے جعلی پرچم والے حملوں سے بھرا پڑا ہے، جو وہ بین الاقوامی توجہ حاصل کرنے یا پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے،” ایک سینئر افسر نے کہا۔

تجزیہ کاروں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت کے الزامات کا سنجیدگی سے جائزہ لے اور ٹھوس شواہد کے بغیر کسی نتیجے پر نہ پہنچے۔ "اگر بھارت کے پاس ثبوت ہیں تو دنیا کے سامنے لائے، بصورت دیگر یہ الزام تراشی بند کرے۔”

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں