تحریر: ریحان خان
اسلام آباد، جمعہ، 13 جون 2025 (ڈبلیو این پی): اسرائیل نے جمعہ کے روز ایران پر وسیع پیمانے پر فضائی حملے شروع کر دیے، جن میں ایران کی جوہری تنصیبات، میزائل بنانے والے کارخانے اور اعلیٰ فوجی کمانڈرز کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل نے اسے تہران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے ایک طویل فوجی مہم کا آغاز قرار دیا ہے۔
یہ کارروائی "آپریشن رائزنگ لائن” کے نام سے شروع کی گئی، جس میں تقریباً 200 اسرائیلی جنگی طیاروں نے ایران کے مختلف علاقوں میں 100 سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ یہ آپریشن اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ایران کے جوہری خطرے کا مکمل خاتمہ نہیں ہو جاتا۔
نیتن یاہو نے کہا، "یہ اسرائیل کی تاریخ کا فیصلہ کن لمحہ ہے۔ اسرائیل نے اپنی بقا کو لاحق ایرانی خطرے کو پیچھے دھکیلنے کے لیے کارروائی کی ہے۔”
جوابی اقدام کے طور پر ایران نے تقریباً 100 ڈرون اسرائیلی حدود کی جانب داغے، جنہیں روکنے کے لیے اسرائیلی فضائی دفاعی نظام سرگرم ہو گیا۔ یہ بات اسرائیلی فوج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل ایفی ڈیفرین نے تصدیق کی۔
ایرانی سرکاری میڈیا اور عینی شاہدین کے مطابق ملک کے کئی علاقوں میں دھماکوں کی اطلاعات ہیں، جن میں نطنز کا جوہری مرکز بھی شامل ہے، جو ایران کے یورینیم افزودگی پروگرام کا مرکز ہے۔ ایران کی انقلابی گارڈ فورس (IRGC) نے تصدیق کی کہ اس کا سربراہ حسین سلامی ہلاک ہو گیا ہے جبکہ تہران میں گارڈز کا ہیڈکوارٹر بھی نشانہ بنا۔ دارالحکومت میں ایک رہائشی علاقے پر حملے میں متعدد بچوں کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات ہیں۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اسرائیلی حملے کو "سفاکانہ اور خونی جرم” قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اسرائیل کو اس کا "کڑوا انجام” بھگتنا پڑے گا۔
ایرانی میڈیا کے مطابق دو سینئر جوہری سائنسدان — فریدون عباسی اور محمد مہدی تہرانچی — تہران میں اسرائیلی حملوں میں مارے گئے۔ تاہم ایران کی نیشنل آئل ریفائننگ اینڈ ڈسٹری بیوشن کمپنی نے کہا کہ ملک کی تیل صاف کرنے اور ذخیرہ کرنے کی تنصیبات محفوظ اور فعال ہیں۔
اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ حملوں میں ایرانی افواج کے چیف آف اسٹاف، پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر اور ایمرجنسی کمانڈ کے سربراہ بھی مارے گئے ہیں۔
اسرائیل نے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کر دی ہے جبکہ تل ابیب کے بین گوریون ایئرپورٹ کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ ایران نے بھی اپنی فضائی حدود بند کر دی ہیں۔ عراق اور اردن سمیت پورے خطے میں پروازیں منسوخ یا موڑ دی گئی ہیں۔
اسرائیلی فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ایال زامیر نے کہا کہ دسیوں ہزار ریزرو فوجیوں کو طلب کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، "ہم ایک تاریخی مہم کے درمیان ہیں۔ یہ ایک فیصلہ کن آپریشن ہے تاکہ ایک وجودی خطرے کو ختم کیا جا سکے۔”
اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈون سار نے دنیا بھر کے ہم منصبوں سے فوری رابطے شروع کر دیے تاکہ اسرائیلی کارروائی کی تفصیلات فراہم کی جا سکیں۔
دوسری جانب امریکہ نے اسرائیلی آپریشن سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا، "ایران کو ایٹمی بم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔” تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ مذاکرات کی راہ اب بھی کھلی رکھنا چاہتا ہے۔
اگرچہ امریکی حکام نے اسرائیلی حملے میں کسی بھی قسم کی شرکت کی تردید کی ہے، اسرائیلی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہ کارروائی واشنگٹن کی مشاورت سے کی گئی۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ اسرائیل نے "خودمختار دفاع” کے تحت کارروائی کی ہے اور ایران کو متنبہ کیا کہ وہ امریکی مفادات یا اہلکاروں کو نشانہ نہ بنائے۔
اس تمام صورتحال کے باوجود امریکی اور ایرانی حکام کے درمیان عمان میں اتوار کے روز چھٹے دور کے جوہری مذاکرات طے ہیں، جو حسبِ معمول جاری رہنے کی توقع ہے۔
ایک سینئر امریکی انٹیلی جنس اہلکار کے مطابق واشنگٹن کا تجزیہ اب بھی یہی ہے کہ ایران اس وقت ایٹمی ہتھیار بنانے کی سرگرمیوں میں ملوث نہیں اور آیت اللہ خامنہ ای نے 2003 سے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام پر پابندی برقرار رکھی ہے۔
اسرائیلی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے ایران کے اندر میزائل اور فضائی دفاعی تنصیبات کو سبوتاژ کرنے کے لیے خفیہ کارروائیاں بھی انجام دی ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹریس نے دونوں فریقین سے "زیادہ سے زیادہ تحمل” برتنے کی اپیل کی ہے۔ ان کے نائب ترجمان فرحان حق کے مطابق، "خطہ کسی نئی کھلی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔”
عالمی منڈیوں نے اس کشیدگی پر فوری ردعمل ظاہر کیا۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا جبکہ ایشیائی حصص بازاروں میں تیزی سے مندی دیکھی گئی۔ سرمایہ کار سونے اور سوئس فرانک جیسے روایتی محفوظ اثاثوں کی طرف متوجہ ہو گئے۔
ایرانی حکومت نے ایک بیان میں اسرائیلی حملے کو "بزدلانہ” قرار دیا اور کہا کہ یہ حملے تہران کے دفاعی جوہری اور میزائل پروگرام کی ضرورت کو مزید واضح کرتے ہیں۔ ایرانی فوج نے خبردار کیا کہ اسرائیل اور امریکہ کو اس حملے کی "بھاری قیمت” چکانا پڑے گی، تاہم امریکی حکام نے کسی بھی قسم کی شمولیت کی تردید کی ہے۔
آن لائن گردش کرنے والی افواہوں کے برعکس، ایرانی سیکیورٹی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای زندہ ہیں اور انہیں حالات سے متعلق مسلسل بریفنگ دی جا رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس اولین حملے کے بعد مشرق وسطیٰ ایک نئے اور زیادہ خطرناک محاذ کی طرف بڑھ رہا ہے، جس کے اثرات اس خطے سے کہیں آگے تک جا سکتے ہیں۔