اقوام متحدہ، جمعہ، اپریل 18، 2025 (ڈبلیو این پی): غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں جمعرات کے روز کم از کم 23 فلسطینی جاں بحق ہوگئے، ایسے میں اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کی ایجنسی (یو این آر ڈبلیو اے) کے سربراہ نے غزہ میں عالمی میڈیا کی فوری رسائی کی اپیل کی ہے، جہاں مقامی صحافی شدید خطرات کے باوجود اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔
یو این آر ڈبلیو اے کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے کہا، "فلسطینی صحافی اپنی جانیں قربان کرتے ہوئے بہادری سے فرائض انجام دے رہے ہیں؛ اب تک 170 صحافی شہید ہوچکے ہیں۔” انہوں نے زور دیا کہ "معلومات کا آزادانہ بہاؤ اور غیر جانبدارانہ رپورٹنگ تنازعات کے دوران حقائق سامنے لانے اور احتساب کے لیے ناگزیر ہیں۔”
لازارینی نے خبردار کیا کہ گزشتہ 18 ماہ سے جاری جنگ کے دوران قابل اعتماد رپورٹنگ کی جگہ پروپیگنڈہ اور انسانیت سوز بیانیے لے چکے ہیں۔
اسی تناظر میں، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر) کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں سربراہ اجیت سنگھے نے بھی صحافیوں کو درپیش خطرات پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے یو این نیوز کو بتایا، "یہ ماحول پہلے ہی بہت دشوار تھا، لیکن 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے صحافیوں کے قتل، گرفتاریوں اور سنسرشپ کے واقعات میں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔”
او ایچ سی ایچ آر کے اعدادوشمار کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے اب تک غزہ میں 209 صحافی شہید ہو چکے ہیں، جن میں وہ بھی شامل ہیں جو فرائض کی انجام دہی یا گھروں میں نشانہ بنے۔ مغربی کنارے میں بھی صحافیوں کی حالت نازک ہے، جہاں اسرائیلی حکام کی جانب سے گرفتاری، جسمانی تشدد اور خواتین صحافیوں کو جنسی تشدد کی دھمکیوں کی اطلاعات ملی ہیں۔
سنگھے نے کہا، "صحافی شہری ہیں اور بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت انہیں تحفظ حاصل ہے، جب تک وہ براہ راست دشمنی میں حصہ نہ لیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی حکام کی جانب سے بھی میڈیا پر دباؤ کی اطلاعات ہیں۔ "صحافیوں کا جان بوجھ کر قتل جنگی جرم ہے، جس کی نشاندہی ہم کئی بار کر چکے ہیں۔”
دوسری جانب، انسانی امدادی اداروں نے غزہ میں بگڑتی ہوئی صورتحال پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے چھ ہفتے قبل عائد کی گئی ناکہ بندی کے نتیجے میں خوراک، ایندھن اور دیگر ضروری اشیاء کی ترسیل مکمل طور پر بند ہوچکی ہے۔ یو این آر ڈبلیو اے کے مطابق، ایندھن کی کمی کے باعث بیکریاں بند، اسپتالوں میں ادویات ختم اور جنریٹرز بند ہونے لگے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ترجمان اسٹیفنی ٹریمبلے کے مطابق، 18 مارچ سے اسرائیلی بمباری کے دوبارہ آغاز کے بعد تقریباً پانچ لاکھ فلسطینی دوبارہ بے گھر ہو چکے ہیں۔ اس صورتحال کے دوران اسرائیلی وزیر دفاع نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ، لبنان اور شام میں نام نہاد "سیکورٹی زونز” میں غیر معینہ مدت تک موجود رہے گی۔
انسانی امداد کی فراہمی میں بھی مشکلات درپیش ہیں، بدھ کے روز اسرائیلی حکام کے ساتھ ہم آہنگ کیے گئے چھ میں سے صرف دو مشنوں کو اجازت دی گئی، جبکہ چار کو مسترد کردیا گیا، جن میں رفح سے ایندھن لینے کا مشن بھی شامل تھا۔
اسرائیلی فوج نے مبینہ طور پر غزہ کے تقریباً 30 فیصد علاقے کو سیکورٹی بفر زون قرار دیا ہے جہاں عام شہریوں کے رہنے پر پابندی ہے۔
ان رکاوٹوں کے باوجود، یو این آر ڈبلیو اے کی ٹیمیں امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ جنوبی غزہ کے علاقے معان میں ایک صحت مرکز، جو دسمبر میں تباہ ہو گیا تھا، دوبارہ کھول دیا گیا ہے جہاں اب بیرونی مریضوں کا علاج، زچگی و بچوں کی صحت کی خدمات، ویکسینیشن اور نفسیاتی معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔ اسی مرکز پر خون عطیہ کرنے کی مہم بھی جاری ہے تاکہ ہنگامی طور پر درکار خون کی شدید قلت پر قابو پایا جا سکے۔
یو این آر ڈبلیو اے نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں ادویات اور طبی سامان خطرناک حد تک کم ہوچکا ہے۔
ادھر، جبالیہ کیمپ میں ایک اہم پانی کے کنویں کی مرمت مکمل کر لی گئی ہے، جو تقریباً 20 ہزار بے گھر افراد کو پانی فراہم کر رہا ہے۔ یو این آر ڈبلیو اے اب غزہ میں پانچ کنویں چلا رہا ہے۔ یونیسیف کے مطابق، فی کس پینے کے پانی کی مقدار 16 لیٹر یومیہ سے کم ہو کر صرف 6 لیٹر رہ گئی ہے۔
فضلہ ہٹانے کا کام بھی محدود پیمانے پر جاری ہے، روزانہ تقریباً 2,500 مکعب میٹر پانی اور 230 ٹن ٹھوس فضلہ جمع کیا جا رہا ہے، جو مجموعی ضروریات کا محض 40 فیصد ہے۔
او سی ایچ اے کی تازہ رپورٹ کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 سے اب تک کم از کم 51,000 فلسطینی جاں بحق اور 116,343 زخمی ہو چکے ہیں۔ 18 مارچ سے جاری تازہ جھڑپوں میں مزید 1,630 افراد جاں بحق اور 4,302 زخمی ہوئے ہیں۔
او سی ایچ اے نے کہا کہ "بھاری مشینری کی کمی کے باعث ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کی کوششیں شدید متاثر ہو رہی ہیں”، اور اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں بے گھر افراد کے خیموں پر بھی حملے ہو رہے ہیں۔
اسی دوران، اقوام متحدہ کے نیوٹریشن کلسٹر نے خبردار کیا ہے کہ بچوں میں غذائی قلت خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ صرف مارچ میں 3,696 بچوں میں شدید غذائی قلت کی نئی تشخیص ہوئی، جو فروری کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہے۔