اسلام آباد، جمعرات، 23 اکتوبر 2025 (ڈبلیو این پی): پاکستان کے شہری علاقے شدید فضائی آلودگی کے بحران کا سامنا کر رہے ہیں جو عوامی صحت کے لیے خطرناک حد تک نقصان دہ بنتا جا رہا ہے۔ لاہور اور کراچی دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہیں۔ ماحولیاتی تنظیم ورلڈ وائلڈ فنڈ (WWF) پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ اگر نظامی اصلاحات نہ کی گئیں، خاص طور پر گاڑیوں کے دھوئیں اور کم معیار کے ایندھن کے استعمال پر قابو نہ پایا گیا، تو ملک کو خطرناک فضائی آلودگی کا سامنا مزید شدت اختیار کرتا جائے گا۔
فضائی معیار کے اعداد و شمار کے مطابق 21 اکتوبر کو لاہور میں 234 اور کراچی میں 182 کی ایئر کوالٹی انڈیکس (AQI) ریکارڈ کی گئی، جو بالترتیب “انتہائی غیر صحت بخش” اور “غیر صحت بخش” زمرے میں آتی ہیں۔ یہ سطحیں عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے تجویز کردہ معیار سے کہیں زیادہ ہیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ وقتی اقدامات کے بجائے طویل المیعاد پالیسیوں کی فوری ضرورت ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق شہری آلودگی کی سب سے بڑی وجہ گاڑیوں کا دھواں ہے۔ تنظیم نے اس امر پر زور دیا کہ پاکستان میں کم معیار کے یورو II ایندھن کا استعمال جاری ہے، جو عالمی سطح پر تسلیم شدہ یورو V معیار سے کہیں کم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بوسیدہ بسیں، ٹرک، ٹریکٹر اور زرعی مشینری آلودگی میں مزید اضافہ کر رہی ہیں۔
ڈائریکٹر جنرل ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان حماد نقی خان نے کہا، “ہم جانتے ہیں کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے — صاف ایندھن، سخت اخراجی معیارات، اور مؤثر عمل درآمد۔ اگر فیصلہ کن اقدامات نہ کیے گئے تو عارضی تدابیر ناکافی رہیں گی اور لاکھوں پاکستانی مضرِ صحت فضا میں سانس لینے پر مجبور رہیں گے۔”
ڈبلیو ڈبلیو ایف نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ پورے ملک میں یورو V معیار کے ایندھن کو اپنایا جائے، گاڑیوں کی فٹنس ٹیسٹنگ کو سخت کیا جائے، اور زرعی مشینری کے لیے بھی اخراجی معیارات نافذ کیے جائیں تاکہ ذراتی آلودگی میں واضح کمی لائی جا سکے۔
گاڑیوں کے دھوئیں کے علاوہ، تنظیم نے چھوٹی صنعتوں، بھٹوں، غیر معیاری ایندھن سے چلنے والی بھٹیوں، اور کوڑا کرکٹ جلانے جیسے عوامل کو بھی آلودگی کے بڑے ذرائع قرار دیا۔ اس کے علاوہ فصلوں کی باقیات جلانے کا موسمی عمل بھی پنجاب اور سندھ میں اسموگ کی شدت بڑھانے کا باعث بنتا ہے، باوجود اس کے کہ حکومت اس پر پابندی عائد کر چکی ہے۔
گزشتہ سال کے دوران پنجاب حکومت نے کچھ مثبت اقدامات کیے، جن میں بھٹوں کی نگرانی کے سخت قوانین، کسانوں کو ہیپی سیڈر مشینیں فراہم کرنا، اور پنجاب کلین ایئر پروگرام کے تحت گاڑیوں کا معائنہ شامل ہے۔ تاہم، ڈبلیو ڈبلیو ایف نے خبردار کیا کہ اسموگ گنز جیسے وقتی اقدامات مہنگے، پانی ضائع کرنے والے اور محدود اثرات کے حامل ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق: “ایسے وقتی اقدامات کسی صورت نظامی اصلاحات کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ ضروری ہے کہ اخراج میں کمی، قابل تجدید توانائی کے فروغ، اور عوامی ٹرانسپورٹ کے نظام کی بہتری جیسے پائیدار اقدامات کیے جائیں۔”
سال 2024 میں ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے لاہور کی دس سالہ فضائی معیار کی جامع رپورٹ شائع کی تھی، جس میں عملی تجاویز دی گئی تھیں جیسے بھاری گاڑیوں میں ایگزاسٹ پارٹیکیولیٹ فلٹرز کی تنصیب اور اخراجی معیارات پر سخت عمل درآمد۔ رپورٹ نے زور دیا کہ ملک میں قومی سطح پر جامع کلین ایئر پالیسی بنانا ناگزیر ہے، جو سائنسی تحقیق اور ادارہ جاتی احتساب پر مبنی ہو۔
1970 میں قائم ہونے والا ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان ملک کا ایک نمایاں ماحولیاتی ادارہ ہے جو حیاتیاتی تنوع کے تحفظ، ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور قدرتی وسائل کے پائیدار استعمال کے لیے کام کر رہا ہے۔ تنظیم کے ملک بھر میں 26 دفاتر اور 250 سے زائد ماہرین سرگرم عمل ہیں، جو پاکستان میں صاف فضا اور صحت مند ماحول کے فروغ کے لیے کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔



