اسلام آباد، بدھ، 2 جولائی 2025 (ڈبلیو این پی): پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بدھ کے روز بین الاقوامی کانفرنس "پاکستان: دہشتگردی کے خلاف ایک فصیل” سے اپنے جامع اور پراثر خطاب میں کہا کہ پاکستان دنیا میں دہشتگردی کے خلاف سب سے نمایاں اور قربانیاں دینے والا ملک ہے، جس نے انسانی جانوں، معیشت اور ذہنی صدموں کی بھاری قیمت چکائی ہے۔
بلاول بھٹو نے عالمی سفیروں، سول سوسائٹی، سیکیورٹی ماہرین اور بین الاقوامی مندوبین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے گزشتہ پچیس برسوں میں دہشتگردی کا تنہا مقابلہ کیا اور کبھی جھکنے یا پیچھے ہٹنے کا راستہ اختیار نہیں کیا۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں اب تک 92 ہزار سے زائد افراد دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، جن میں سویلین، فوجی اہلکار، بچے، اساتذہ اور عام شہری شامل ہیں، جب کہ ملک کو 150 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان اٹھانا پڑا۔ صرف 2024 میں 444 حملوں میں 1,612 عام شہری اور 685 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا: "یہ محض اعداد و شمار نہیں، بلکہ ناشتہ کی میز پر خالی کرسیاں ہیں۔ ہر نقصان ہمیں مزید مضبوط بناتا ہے۔”
انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ "پشاور میں پھٹنے والا بم شمالی افریقہ یا دمشق کے چیٹ رومز میں تیار ہو سکتا ہے۔ اگر ہم پیچھے ہٹیں گے تو کون آگے بڑھے گا؟”
چیئرمین پی پی پی نے فوجی آپریشنز جیسے ضربِ عضب، ردالفساد اور بلوچستان میں جاری کارروائیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان آپریشنز نے القاعدہ، داعش اور ٹی ٹی پی جیسے خطرناک گروہوں کی کمر توڑ دی۔ انہوں نے کہا: "ہماری سڑکیں آئی ای ڈی اور خودکش حملوں کے زخموں سے بھری پڑی ہیں، اور یہ قیمت ہم اس لیے چکاتے ہیں تاکہ دنیا کے دوسرے لوگ سکون سے سفر کر سکیں۔”
انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ:
* پاکستانی پاسپورٹ رکھنے والوں کے ساتھ ویزا پالیسی میں عزت و احترام کا سلوک کیا جائے۔
* مالیاتی ادارے پاکستان کے خطرات کا ادراک کریں۔
* عالمی میڈیا پاکستان کو "مسائل زدہ ملک” کہنے کا رویہ ترک کرے۔
افغان طالبان کو واضح پیغام دیتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا: "آپ کو استحکام کے وعدے پر خوش آمدید کہا گیا، لیکن نتیجہ 40 فیصد زیادہ دہشتگرد حملے بنے۔”
انہوں نے کابل حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ دوحہ معاہدے پر عملدرآمد کرے، سرحد پار حملے بند کرے، اور ٹی ٹی پی و بی ایل اے جیسے گروہوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کرے۔
انہوں نے کہا کہ اب وقت ہے کہ ہم صرف فوجی نہیں بلکہ فکری اور سماجی بنیادوں پر بھی انتہا پسندی کا مقابلہ کریں۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ:
* سی پی ای سی کے ساتھ ایک "عوامی اقتصادی و ثقافتی کاریڈور” قائم کیا جائے جو تعلیم، صاف توانائی اور خواتین کو بااختیار بنانے کے منصوبوں کو فروغ دے۔
* ہر اسکول جو وزیرستان میں بنایا جائے گا، وہ ایک ایسی گولی ہے جو ہمیں کبھی نہیں چلانی پڑے گی۔
انہوں نے ایک "ڈیجیٹل بل آف رائٹس” کا مطالبہ بھی دہرایا تاکہ نوجوانوں کو آن لائن شدت پسندی سے بچایا جا سکے اور ٹیکنالوجی پلیٹ فارمز کو اس حوالے سے جواب دہ بنایا جا سکے۔
انہوں نے عالمی مالیاتی اداروں سے مطالبہ کیا کہ دہشتگردی سے منسلک مالی لین دین کو منشیات کی اسمگلنگ جتنی سنجیدگی سے لیا جائے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ انتہا پسندی کو شکست دینے کے لیے ہمیں اپنے نصاب تعلیم میں اسلامی اور برصغیر کی تکثیریت پر مبنی تعلیمات شامل کرنی ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ: "کراچی کا کوڈر، صوابی میں بیوہ کا کاروبار، اور ایف-16 کا پائلٹ — یہی اصل پاکستان ہے جو جہالت کے خلاف بغاوت کر رہا ہے۔”
بھارت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ: "دہشتگردی کو قوم پرستانہ بیانیے یا علاقائی غلبے سے نہیں روکا جا سکتا۔ وقت ہے کہ بھارت اپنی ضد سے نیچے آئے، مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل کرے، آبی وسائل کو ہتھیار نہ بنائے، اور ہمالیہ جتنا بلند امن تعمیر کرے۔”
اپنے خطاب کے اختتام پر بلاول نے کہا: "ہم نے امن کا دیباچہ اپنے لہو سے لکھا ہے، ہمیں اسے ان لوگوں سے منظوری لینے کی ضرورت نہیں جو سمندروں اور بہانوں کی آڑ میں چھپے بیٹھے ہیں۔”
انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے تاریخی الفاظ یاد دلاتے ہوئے کہا: "ہم جتنا وقت لگے لڑیں گے، لیکن ہمیں ہزار سال نہیں لگیں گے۔ ہمارا عزم دشمن سے بڑا ہے۔”
بلاول نے اپنی بات اس پیغام پر ختم کی: "ہر بار جب ہمیں گرایا جاتا ہے، ہم پہلے سے اونچا اٹھتے ہیں؛ جب ہمیں تقسیم کیا جاتا ہے، ہم مزید قریب آتے ہیں؛ جب ہمیں موت کا سبق پڑھایا جاتا ہے، ہم زندگی میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔”
اس تاریخی خطاب میں بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان کو دہشتگردی کا شکار نہیں، بلکہ اس کے خلاف عالمی جدوجہد کی سب سے اگلی صف میں کھڑا، زخموں سے چُور مگر عزم میں پختہ ملک کے طور پر پیش کیا — ایک ایسا ملک جو پرامن عالمی مستقبل کی تشکیل میں اپنا جائز کردار مانگ رہا ہے۔