ٹرمپ نے ایران-اسرائیل کشیدگی کے باعث جی 7 سربراہی اجلاس ادھورا چھوڑ دیا، تہران خالی کرنے کی ہنگامی اپیل

11

نیویارک، منگل، 17 جون 2025 (ڈبلیو این پی): مشرق وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا میں جاری جی 7 سربراہی اجلاس کو اچانک ادھورا چھوڑنے کا اعلان کر دیا اور تہران کے شہریوں کو فوری انخلا کی اپیل کرتے ہوئے خبردار کیا کہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ٹروتھ سوشل” پر ایک سلسلہ وار پیغامات میں لکھا: "امریکہ فرسٹ کا مطلب کئی عظیم چیزیں ہیں، جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ ایران جوہری ہتھیار نہیں رکھ سکتا۔” ان پیغامات میں تہران کے شہریوں کو فوراً شہر چھوڑنے کی ہدایت بھی شامل تھی۔

وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیوٹ نے "ایکس” پر جاری بیان میں تصدیق کی کہ صدر ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال کے باعث کینیڈا سے واشنگٹن واپس جانے کا فیصلہ کیا ہے، حالانکہ اجلاس کے پہلے دن "بہت کچھ حاصل” کیا گیا تھا۔ ان کے شیڈول میں یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی اور میکسیکن صدر کلاڈیا شین باوم سے ملاقاتیں شامل تھیں جو اب منسوخ کر دی گئی ہیں۔

اس پیش رفت کے فوراً بعد اسرائیلی فوج نے شمالی تہران کے رہائشیوں کو پناہ لینے کی ہدایت جاری کی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خطے میں تصادم کی شدت مزید بڑھ گئی ہے۔

نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق، صدر ٹرمپ اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ آیا امریکہ اسرائیل کی جانب سے ایران کے انتہائی محفوظ فردو جوہری تنصیب پر براہ راست حملے کی حمایت کرے یا نہیں۔ یہ تنصیب صرف امریکی بی-2 اسٹیلتھ بمبار طیاروں کے مخصوص "بنکر بسٹر” بموں سے ہی نشانہ بنائی جا سکتی ہے۔

ایرانی حکام نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ کسی اسرائیلی حملے میں شریک ہوتا ہے تو اس سے جوہری معاہدے کی بحالی کی بچی کھچی امیدیں بھی ختم ہو جائیں گی۔ صدر ٹرمپ ماضی میں بارہا اس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ ایک "بہتر معاہدہ” کرنا چاہتے ہیں۔

دوسری جانب، پینٹاگون کے ترجمان شان پارنیل نے بیان میں کہا ہے کہ امریکی افواج خطے میں دفاعی پوزیشن میں ہیں اور امریکی اہلکاروں اور مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان یہ بحران اُس وقت شدت اختیار کر گیا جب جمعہ کے روز اسرائیلی میزائل حملوں میں ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں کئی اعلیٰ فوجی افسران ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد دونوں ممالک کی جانب سے جوابی حملوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

ٹرمپ، جو اتوار کو کینیڈا کے شہر کانانسکس پہنچے تھے، جی 7 رہنماؤں کے ساتھ "فیملی فوٹو” میں شریک ہوئے، لیکن پھر صحافیوں کو مختصراً بتایا کہ انہیں فوری طور پر واپس جانا ہے۔ انہوں نے کہا، "یہ فیصلہ اجلاس کے معاملات کی وجہ سے نہیں، بلکہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال کے پیش نظر کیا گیا ہے۔”

صدر ٹرمپ نے ابتدائی بیانات میں ایران کو خبردار کیا کہ "ایران یہ جنگ نہیں جیت رہا، انہیں فوراً مذاکرات کرنے چاہئیں، قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے۔” تاہم بعد ازاں انہوں نے نرم لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ "میرا خیال ہے ایران مذاکرات کی میز پر آ چکا ہے، وہ معاہدہ کرنا چاہتا ہے۔”

اس ساری صورتحال میں، مشرق وسطیٰ میں ممکنہ وسیع جنگ کے خطرات بڑھ گئے ہیں، جبکہ امریکہ کے فوجی کردار اور ٹرمپ کی آئندہ حکمت عملی پر عالمی سطح پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں