پاکستان میں ورلڈ نو ٹوبیکو ڈے پر تمباکو کی روک تھام کیلئے سخت قوانین اور ٹیکس بڑھانے کا مطالبہ

4

اسلام آباد، ہفتہ، 31 مئی (ڈبلیو این پی): پاکستان نے ہفتہ کو دنیا بھر کی طرح "ورلڈ نو ٹوبیکو ڈے 2025” منایا، جس کے موقع پر پالیسی سازوں، صحت عامہ کے ماہرین اور سول سوسائٹی تنظیموں نے نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے تمباکو نوشی کے رجحان پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری اور جامع اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔

پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے اپنے خصوصی پیغام میں تمباکو کے استعمال کو "وبا اور زہر” قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ یہ ہماری زندگیوں، گھروں اور پیاروں کیلئے ایک سنگین خطرہ ہے۔ اُنہوں نے زور دیا کہ تمباکو نوشی صرف ایک بری عادت نہیں بلکہ ایک سنگین عوامی صحت کا مسئلہ ہے۔ وزیر اعلیٰ نے تمباکو سے پاک اسکولوں، اسپتالوں اور عوامی مقامات کے قیام کے لیے حکومتِ پنجاب کے جاری قانونی اور آگاہی اقدامات کا ذکر بھی کیا۔

انہوں نے کہا کہ "تمباکو نوشی کے نقصانات سے آگاہی صرف حکومت کی نہیں بلکہ پوری قوم کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ والدین، اساتذہ، علمائے کرام اور سول سوسائٹی کو مل کر تمباکو سے پاک پاکستان کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا۔”

صحت عامہ سے متعلق حالیہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ تئیس لاکھ سے زائد افراد تمباکو مصنوعات استعمال کرتے ہیں، جس کے باعث ہر سال 1,60,000 سے زائد افراد کینسر، دل کے امراض اور سانس کی بیماریوں جیسے مہلک مسائل کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ملک میں ہر پانچواں بالغ شہری سگریٹ نوشی کرتا ہے جبکہ 13 سے 15 سال کی عمر کے 10 فیصد اسکول جانے والے بچے بھی تمباکو مصنوعات کے استعمال میں ملوث پائے گئے ہیں۔

صحت کی ماہر ڈاکٹر ثناء رؤف نے نوجوانوں میں تمباکو نوشی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا پر تمباکو مصنوعات کی تشہیر اور سستی سگریٹ کی آسان دستیابی نوجوانوں کو نشانے پر رکھ رہی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ "قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے، اور نوجوان تمباکو انڈسٹری کی جارحانہ حکمت عملی کا شکار ہو رہے ہیں۔”

تمباکو مخالف مہم چلانے والے ماہرین نے اس مسئلے کے تین بڑے چیلنجز کی نشاندہی کی: سگریٹ کی آسان دستیابی، صنعت کی تشہیری حکمت عملیاں اور قوانین پر ناقص عمل درآمد۔

پشاور میں سول سوسائٹی تنظیم بلو وینز نے لیڈی ریڈنگ اسپتال اور پروونشل الائنس فار سسٹین ایبل ٹوبیکو کنٹرول کے اشتراک سے ایک آگاہی سیمینار کا انعقاد کیا جس کا موضوع تھا: "Unmasking the Appeal: Exposing Industry Tactics on Tobacco and Nicotine Products”۔

ڈاکٹر طارق خان برکی نے تمباکو کمپنیوں کی گمراہ کن تشہیر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "ہم اسپتالوں میں روزانہ تمباکو کے نقصانات کے خوفناک نتائج دیکھتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ان دھوکہ دہی پر مبنی ہتھکنڈوں پر سختی سے پابندی عائد کی جائے۔”

ماہرین نفسیات ڈاکٹر احتشام اور ڈاکٹر قاضی نے کہا کہ انڈسٹری نوجوانوں کو گلیمر اور کشش کے ذریعے پھنساتی ہے۔ قمر نسیم، پروگرام منیجر بلو وینز نے کہا کہ تمباکو انڈسٹری پالیسی سازی پر اثرانداز ہو رہی ہے اور اس مداخلت کو روکنے کیلئے قانون سازی اور عوامی شعور میں اضافہ ضروری ہے۔

اسلام آباد میں سپارک اور یو تھ ایڈووکیٹس اگینسٹ ٹوبیکو (YAAT) نے ایک بھرپور تقریب کا انعقاد کیا جس میں نوجوانوں نے تقریر، موسیقی، فلم اور فن کے ذریعے تمباکو انڈسٹری کی چالاکیوں کو بے نقاب کیا۔

ڈاکٹر خلیل احمد ڈوگر نے سگریٹ پر فی پیک 39 روپے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے بتایا کہ کم ٹیکس والے سستے برانڈز کی طرف رجحان قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا رہا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ "یہ صرف صحت کا نہیں بلکہ قومی آمدنی کا بھی مسئلہ ہے۔”

بجٹ سے قبل ایس ڈی پی آئی اور ایس پی ڈی سی جیسے تھنک ٹینکس نے تمباکو ٹیکسیشن پر سیمینار کا انعقاد کیا۔ ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے مطالبہ کیا کہ ٹیکس نظام کو آمدنی اور صحت کی ترجیحات سے ہم آہنگ کیا جائے۔

آصف اقبال نے سگریٹ پر 40 روپے فی پیک ٹیکس بڑھانے کی تجویز دی اور انڈسٹری کی اسمگلنگ سے متعلق مبالغہ آمیز دعووں کو چیلنج کیا۔

عالمی ادارہ صحت کے ٹیکنیکل ایڈوائزر ڈاکٹر وسیم سلیم کے مطابق پاکستان نے دو برسوں میں ٹیکس میں جمود اور پیداوار میں تبدیلی کے باعث 82 ارب روپے کا ممکنہ ریونیو ضائع کیا۔

دیگر مقررین نے سنگل ٹائر ٹیکس سسٹم، ٹریس اینڈ ٹریک سسٹم کی مؤثر نفاذ اور ویپس و نکوٹین پاؤچز جیسے جدید مصنوعات پر واضح ضوابط کا مطالبہ کیا۔

جمعہ کو منعقدہ ایک پالیسی ڈائیلاگ میں پارلیمنٹرینز، ایف بی آر افسران اور صحت کے ماہرین نے سخت قوانین اور ان کے نفاذ پر زور دیا۔ رکن قومی اسمبلی سحر کامران نے اپنی قانون سازی کی کوششوں کا ذکر کیا جبکہ سبین غوری نے تمباکو کے تمام جدید متبادلات کو قانون کے دائرے میں لانے کی ضرورت پر زور دیا۔

رکن پنجاب اسمبلی طاہرہ مشتاق نے پنجاب میں صوبائی لیوی لگانے اور ای سگریٹس کو ریگولیٹ کرنے کی تجویز دی، جبکہ نائمه کشور خان نے تمباکو کاشتکاروں کو متبادل روزگار فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

صفدر رضا نے موجودہ ٹو ٹائر ٹیکس نظام کو انڈسٹری کیلئے فرار کا راستہ قرار دیا۔ ممتاز مغل نے خواتین اور خواتین سربراہ خاندانوں پر تمباکو کے اثرات کو اجاگر کیا۔

وزارت صحت کے ڈاکٹر ارسلان حیدر نے حکومت کی ڈبلیو ایچ او فریم ورک کنونشن آن ٹوبیکو کنٹرول (FCTC) سے وابستگی کا اعادہ کیا اور بتایا کہ قوانین میں اصلاحات کیلئے مسودہ تیار کیا جا رہا ہے۔

وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر شبانہ سلیم نے تصدیق کی کہ تمباکو کنٹرول سیل کی بحالی اور سگریٹ پر ٹیکس بڑھانے سے متعلق جامع تجاویز بجٹ سے قبل متعلقہ اداروں کو ارسال کر دی گئی ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ "یہ صرف صحت کا نہیں بلکہ ایک معاشی تقاضا بھی ہے۔”

پالیسی ڈائیلاگ کا اختتام اس متفقہ مطالبے پر ہوا کہ ٹیکس اصلاحات، قانون پر سختی سے عمل درآمد اور ادارہ جاتی تعاون کے ذریعے ملک میں تمباکو کی وبا کا مؤثر مقابلہ کیا جائے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں