اسلام آباد، ہفتہ، 31 مئی 2025 (ڈبلیو این پی): انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز (آئی آر ایس) اسلام آباد میں معروف ماہر انسداد دہشت گردی اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (PIPS) کے صدر عامر رانا نے وسطی ایشیا میں سیکیورٹی کے بدلتے ہوئے منظرنامے اور پاکستان پر اس کے اثرات پر ایک تفصیلی لیکچر دیا۔
"ایمننٹ اسپیکر سیریز” کے تحت منعقدہ اس لیکچر کا عنوان "وسطی ایشیا میں انسداد دہشت گردی کے چیلنجز: پاکستانی نقطہ نظر” تھا۔ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق، عامر رانا نے بدلتے ہوئے خطرات کے تناظر میں پاکستان کے انسداد انتہاپسندی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک جامع تجزیہ پیش کیا۔
انہوں نے وسطی ایشیائی ریاستوں کی انتہا پسندی کے خلاف واضح اور سخت پالیسیوں کی تعریف کی، خصوصاً ان ممالک کی جانب سے شدت پسند گروہوں اور سیاسی تنظیموں پر پابندیوں کے اقدامات کو سراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو بھی اسی طرح کے فیصلہ کن اور جامع اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ شدت پسندی کے خلاف مؤثر کارروائی کی جا سکے اور پائیدار استحکام کو فروغ دیا جا سکے۔
عامر رانا نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف کامیاب حکمت عملی وہی ہو سکتی ہے جو جامع، غیرجانبدار اور سیاسی عزم و سماجی مزاحمت پر مبنی ہو۔ انہوں نے داعش خراسان (ISKP) اور القاعدہ جیسے گروہوں سے درپیش مسلسل خطرات پر بھی روشنی ڈالی اور خبردار کیا کہ سطحی سکون کے باوجود ان نظریاتی تحریکوں کے اثرات شمالی افریقہ سے جنوب مشرقی ایشیا تک پھیل رہے ہیں، جو خطے کے امن کے لیے مستقل خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت کے نیٹ ورکس کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے ریگولیٹری نظام کو مضبوط اور مالیاتی نگرانی کو مزید مؤثر بنایا جائے۔ انہوں نے خفیہ معلومات کے تبادلے میں بہتری اور خطے میں باہمی تعاون کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) جیسے علاقائی فورمز کو انسداد دہشت گردی کے لیے مشترکہ پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے۔
عامر رانا نے کہا، "وسطی ایشیا کی سلامتی براہ راست جنوبی ایشیا کے اسٹریٹجک فیصلوں سے جڑی ہوئی ہے، ہمیں غفلت نہیں بلکہ تعاون کی راہ اپنانی ہوگی۔”
اس سیشن میں سفارت کاروں، محققین اور سیکیورٹی تجزیہ کاروں کی بڑی تعداد نے شرکت کی، جس سے خطے میں مشترکہ خطرات اور انسداد دہشت گردی کے مستقبل پر بھرپور مکالمہ ہوا۔
اسی تناظر میں ازبکستان کے سفیر علشر تُختایف نے گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی سے اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی، جس میں دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے پر گفتگو کی گئی۔
ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے وزیر اعظم شہباز شریف کے حالیہ دورہ ازبکستان کے بعد دوطرفہ تعلقات میں بہتری پر اطمینان کا اظہار کیا۔ گورنر کنڈی نے تجارت و معیشت کے شعبوں میں وفود کے تبادلوں کو خطے میں استحکام لانے کا ایک اہم ذریعہ قرار دیا۔
دونوں فریقین نے ازبکستان-افغانستان ریلوے منصوبے کو پشاور تک توسیع دینے کی تجویز پر غور کیا، جس کا مقصد علاقائی روابط کو فروغ دینا ہے۔ ساتھ ہی اسلام آباد اور تاشقند کے درمیان براہ راست پروازوں کے آغاز پر بھی اتفاق کیا گیا تاکہ عوامی روابط کو مزید تقویت دی جا سکے۔
سفیر تُختایف نے دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ معیار کے کھیلوں کے سامان کی تجارت بڑھانے اور ازبک تعمیراتی کمپنیوں کو خیبر پختونخوا میں سرمایہ کاری کی دعوت دینے میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس وقت تقریباً تین ہزار پاکستانی طلباء ازبکستان کی جامعات میں زیر تعلیم ہیں، جو مضبوط تعلیمی تعلقات کا مظہر ہے۔
گورنر کنڈی نے ازبکستان کے ساتھ پاکستان کے برادرانہ تعلقات کو مزید مضبوط اقتصادی شراکت داری میں تبدیل کرنے کے عزم کا اعادہ کیا اور سفیر کو پشاور کا دورہ کر کے مقامی کاروباری برادری سے ملاقات کی دعوت دی۔ سفیر نے بھی گورنر کو ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ تاشقند کے دورے کی دعوت دی۔
ملاقات کا اختتام پشاور اور ازبک شہر ترمز کو جڑواں شہر قرار دینے کے فیصلے پر ہوا، جو دونوں خطوں کے درمیان ثقافتی و اقتصادی تعاون کے نئے دور کا آغاز ثابت ہوگا۔