سعودی عرب کبھی سرسبز نخلستان تھا، قدیم غاروں کے مطالعے سے انکشاف

13

ریاض، بدھ، 9 اپریل 2025 (ڈبلیو این پی): سعودی عرب کی ہیریٹیج کمیشن کی زیر قیادت کی گئی ایک انقلابی سائنسی تحقیق نے انکشاف کیا ہے کہ آج کا بنجر اور صحرائی جزیرہ نما عرب آٹھ ملین سال قبل ایک سرسبز و شاداب نخلستان ہوا کرتا تھا۔

یہ حیران کن تحقیق “نیچر” جیسے بین الاقوامی معتبر سائنسی جریدے میں شائع ہوئی ہے، جس کا باضابطہ اعلان ایک پریس کانفرنس میں کیا گیا۔ تحقیق میں ریاض کے شمال مشرق میں واقع “دحول السمان” کے 22 قدرتی غاروں کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا۔

 

ہیریٹیج کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل آف اینٹی کوئٹیز ڈاکٹر عجب العتیبی کے مطابق یہ مطالعہ جزیرہ نما عرب کی تاریخ میں موسمیاتی تبدیلیوں کا سب سے طویل اور مسلسل ریکارڈ فراہم کرتا ہے، جو آٹھ ملین سال پر محیط ہے۔

ڈاکٹر عجب العتیبی نے کہا:”یہ جزیرہ نما عرب میں موسمیاتی تاریخ کے سب سے اہم شواہد میں سے ایک ہے۔ یہ تحقیق نہ صرف ہمارے ماحولیاتی ماضی کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے بلکہ اس خطے کے افریقہ، ایشیا اور یورپ کے درمیان انسانی و حیوانی ہجرت کے راستے کے طور پر کردار کو بھی اجاگر کرتی ہے۔”یہ مطالعہ “Recurrent Humid Phases in Arabia Over the Past 8 Million Years” کے عنوان سے کیا گیا ہے اور یہ مملکت کے فلیگ شپ منصوبے “گرین عربیہ پروجیکٹ” کا مرکزی حصہ ہے، جس کا مقصد سعودی عرب کی قدرتی و ماحولیاتی تاریخ کو دریافت کرنا ہے۔

اس منصوبے میں دنیا بھر کی 28 تحقیقی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے 30 سائنسدانوں نے حصہ لیا، جن میں سعودی جیولوجیکل سروے، کنگ سعود یونیورسٹی، میکس پلانک انسٹیٹیوٹ (جرمنی)، گریفِتھ یونیورسٹی (آسٹریلیا)، اور یورپ و امریکہ کی مختلف جامعات و تحقیقی مراکز شامل ہیں۔

ماہرین نے جدید کیمیائی تکنیکوں جیسے آکسیجن اور کاربن آئسوٹوپ تجزیے، نیز یورینیم-تھوریم اور یورینیم-لیڈ ڈیٹنگ کا استعمال کرتے ہوئے دیرینہ نمی کے مختلف ادوار کی شناخت کی، جو میوسین کے آخری دور سے لے کر پلیوسین اور پھر پلیسٹوسین کے آخری زمانے تک پھیلے ہوئے تھے۔

یہ مرطوب ادوار جزیرہ نما عرب کو زرخیز زمینوں میں تبدیل کر دیتے تھے، جہاں دریا، جھیلیں اور متنوع حیاتیاتی نظام موجود تھے۔ تحقیق کے لیے استعمال ہونے والے نمونے — جن میں شعیبہ کے قریب سات “سنگھولز” سے حاصل شدہ اسٹالگمائٹس اور اسٹالکٹائٹس شامل ہیں — میں زمین کی کروڑوں سال پرانی ماحولیاتی تبدیلیوں کی جھلک محفوظ ہے۔

تحقیقی نتائج ان آثارِ قدیمہ اور حیاتیاتی شواہد کی تصدیق کرتے ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس علاقے میں کبھی مگرمچھ، دریائی گھوڑے، ہاتھی، زرافے اور بڑے شکاری جانور جیسے پانی پر انحصار کرنے والی مخلوقات بڑی تعداد میں پائی جاتی تھیں، جو اب یہاں معدوم ہو چکی ہیں۔

یہ تحقیق نہ صرف ایک بھرپور ماحولیاتی نظام کی بازیافت ہے بلکہ یہ اس بات کو بھی واضح کرتی ہے کہ قدیم موسمی حالات نے براعظمی سطح پر انسانی ہجرت اور حیاتیاتی تنوع کے رجحانات کو کیسے متاثر کیا۔

ڈاکٹر العتیبی نے مزید کہا: “ان قدیم مرطوب ادوار کو سمجھنے سے ہمیں یہ جاننے میں مدد ملتی ہے کہ انسان اور جانور کس طرح مختلف براعظموں کے درمیان منتقل ہوئے اور بدلتے ہوئے ماحول کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کیا۔”

ہیریٹیج کمیشن نے اس تحقیق کو مملکت کے سائنسی اور ثقافتی سفر میں ایک سنگ میل قرار دیتے ہوئے عالمی تحقیقی تعاون کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کیا۔ حکام کے مطابق سعودی عرب کی بہت سی قدرتی غاریں اب بھی دریافت طلب ہیں، جو ممکنہ طور پر علاقے کے قدیم ماضی کے مزید رازوں کو بے نقاب کر سکتی ہیں۔

“گرین عربیہ پروجیکٹ” کے تحت تحقیق کا یہ سلسلہ جاری ہے، جس کا مقصد بدلتے ہوئے موسمی و ماحولیاتی چیلنجز کے باوجود سعودی عرب کے قدرتی اور ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنا اور عالمی سطح پر اجاگر کرنا ہے۔